ہم اپنی مسجد میں اہلِ محلہ کے بچوں کے لیے ایک اسکول قائم کرنا چاہتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد محلہ کے بچوں کو دینی و عصری تعلیم دینا اور کم سے کم فیس پر یا مستحق بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنا ہے، اس اسکول کے مالیاتی نظام میں کم فیس کے ساتھ زکاۃ ، صدقات ، عطیات وغیرہ بھی شامل کیے جائیں گے۔ البتہ اسکول کے لیے مخصوص جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کے دروازوں سے متصل وضو خانے کے چھت پر اسکو ل کی عمارت قائم کرنےکا ارادہ ہے، کیا ہمارے لیے اس طرز پر اور مذکورہ جگہ پر اسکول قائم کرنا درست ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ مسجد کی حدود میں فیس لے کر عصری تعلیم دینا جائز نہیں ہے۔
جس زمین کو ایک مرتبہ وقف کر کے اس پر شرعی مسجد بنادی جاۓ،تو وہ زمین تحت الثری(زمین کی تہہ) سے لے کر آسمان تک ہمیشہ کے لیے شرعی مسجد بن جاتی ہے ،چناں چہ وہ زمین جس کو مسجد کے لیے وقف کیا گیا ہے وہ زمین مسجد اور مسجد کے لوازمات کے لیے ہی رہے گی قیامت تک،لہذا مسجد کی موقوفہ زمین کے کسی بھی حصے میں عصری تعلیم کے لیے اسکول بنا نا ناجائز ہے،لہذا مذکورہ مسجد کے احاطے میں اسکول بنانے کے بجاۓ آس پاس کوئی اور جگہ خرید کر یا کرایہ پرلے کر اس میں اسکول بنایا جاۓ اور بچوں کو دینی و عصری تعلیم دی جاۓ۔
حلبی کبیر میں ہے:
"فالحاصل أن المساجد بنيت لأعمال الآ خرة ....... ولم تبن لأ عمال الدنيا .....فماكان فيه نوع عبادة و ليس فيه اهانة ولاتلويث لايكره،والاكره."
(فصل في احكام المساجد،611، ط:سهيل اكيڈمي لاهور.)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".
( كتاب الوقف،الباب الثانی فیما یجوز وقفه،2/ 362، ط: رشیدیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"قيم المسجد لا يجوز له أن يبني حوانيت في حد المسجد أو في فنائه؛ لأن المسجد إذا جعل حانوتا ومسكنا تسقط حرمته وهذا لا يجوز، والفناء تبع المسجد فيكون حكمه حكم المسجد، كذا في محيط السرخسي."
(كتاب الوقف،الباب الحادي عشر،الفصل الثاني في الوقف وتصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه،462/2، ط:رشيدية)
البحر الرائق میں ہے:
"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد".
( کتاب الصلاۃ،باب الحدث في الصلاة، فصل استقبال القبلة بالفرج في الخلاء واستدبارها، 36/2ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408102093
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن