بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے دکان دار کا مسجد کی چھت پر دکان کے لیے سولر سسٹم لگانے کا حکم


سوال

 ایک مسجد کے نیچے دکان ہے، جوکہ مسجد کی ہی ملکیت ہے، کرایہ دار اس دکان میں دکان کے استعمال کے لیے سولر سسٹم لگانا چاہتا ہے، (یعنی اس کی بجلی صرف دکان میں استعمال ہوگی ) جو کہ مسجد کی چھت پر نصب کیا جائے گا، تو کیا مسجد کی چھت پر دکان کے لیے سولر لگوانا شرعاً جائز ہے؟ ساتھ میں ان کا اپنا گھر ہے،  دکان والے اس چھت پر سولر لگانا چاہتے تھے، لیکن سولر لگانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ دکان کے اوپر والی چھت ہی پر سولر لگ سکتا ہے،  کسی دوسری چھت پر ہم نہیں لگاسکتے،  اس صورت میں آپ سے شرعی را ہ نمائی مطلوب ہے،  نیز اگر دکان والے دکان اور مسجد دونوں کے لیے سولر سسٹم لگوادیں تو پھر کیا حکم ہوگا؟وضاحت سے بتادیں۔

جواب

واضح رہے کہ مسجد کی ضرورت کے پیشِ  نظر مسجد کی چھت پر سولر سسٹم لگانے کی تو اجازت ہے،لیکن مسجد کی چھت پر کسی اور کا اپنے مفاد کے لیے سولر سسٹم لگانا جائز نہیں ہے۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ دوکاندار یا مسجد والے مسجد کی چھت پر مسجد کے لیے سولر سسٹم لگاتے ہیں، تو یہ جائز ہے، لیکن مذکورہ دکاندار کا اس  سےاپنے لیے بجلی  استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر مذکورہ دکاندار سولر کی بجلی استعمال کر نے کی صورت میں مسجد کی چھت کا مناسب کرایہ مقررکرکے  اس کا کرایہ  مسجد کوادا کرے، تو اس صورت میں گنجائش ہوگی۔  اسی طرح اگر مسجد کی چھت پر سولر لگاکر مسجد کو اس کی بجلی کی فری سہولت دے اور مسجد کمیٹی یہ طریقہ مسجد کے مفاد میں دیکھے،  تو اس کی اجازت دے سکتی ہے۔

' 'شرح صحيح البخارى لابن بطال'' میں ہے:

"قال ابن القاسم: قد سئل مالك عن أقناء تكون فى المسجد وشبه ذلك، فقال: لا بأس بها."

(‌‌كتاب الصلاة، باب القسمة وتعليق القنو في المسجد، ج: 2، ص: 73، ط: مكتبة الرشد - السعودية، الرياض)

'الکوکب الدری علی جامع الترمذی' میں ہے:

"قوله [بالقنو والقنوين فيعلقه] فيه دلالة على تعليق المراوح في المساجد لما أنها ليست بأقل نفعًا من القنو مع ما في القنو من الشغل والتلويث ما ليس في المروحة."

(‌‌أبواب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج: 4، ص: 85،84، ط: مطبعة ندوة العلماء الهند)

 'فتح ذی الجلال والإكرام بشرح بلوغ المرام' میں ہے:

"في حديث عائشة رضي الله عنها أن الرسول (صلى الله عليه ولسم) أمر ببناء المساجد في الدور وأن تنظف وتطيب، وعلى هذا فالمشروع تنظيف المساجد من الأذى وتطيبيها، يعني: تحسينها وتزيينها ووضع الطيب فيها؛ لأنها أماكن عبادة.

يتفرع على هذه الفائدة: أنه ينبغي أن يجعل في المساجد ما يريح المصلين مثل: التكييف أو المراوح، أو الأنوار إذا كان الناس يحتاجون إليها في الليل وما أشبه ذلك."

(‌‌كتاب الجنائز، ‌‌حكم الصلاة على القبر، ج: 2، ص: 544، ط: المكتبة الإسلامية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"متولي المسجد ليس له أن يحمل سراج المسجد إلى بيته وله أن يحمله من البيت إلى المسجد، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به، الفصل الثاني في الوقف...، ج: 2، ص: 462، ط: دار الفكر)

وفيه أيضاً:

"ولو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه، كذا في السراج الوهاج ولا يجوز أن يترك فيه كل الليل إلا في موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المقدس ومسجد النبي صلى الله عليه وسلم والمسجد الحرام، أو شرط الواقف تركه فيه كل الليل كما جرت العادة به في زماننا، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به، الفصل الأول فيما يصير به مسجدا وفي أحكامه وأحكام ما فيه، ج: 2، ص: 459، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں