بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے دروازوں اور کھڑکیوں پر سردی یا گرمی کی وجہ پردے لٹکانے کا حکم


سوال

 مسجدوں میں سردی  یاگرمی سے بچنے کے لیے دروازوں پر اور کھڑکیوں پر کپڑے لٹکانا کیسا ہے؟  ایک مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے اس کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسجد میں سردی یا گرمی سے بچنے کےلیے مسجد کے دروازوں اور کھڑکیوں پر پردے لٹکانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، ہاں البتہ پردوں میں یہ احتیاط کریں کہ ان پر کوئی نقش و نگار نہ بنا ہوا ہو، جو نمازیوں کے خشوع و خضوع میں کمی کا سبب بن سکے، اگر ایسا پردہ ہو کہ اس کے نقش و نگار کی وجہ سے نمازی کا ذہن منتشر ہو، تو پھر ایسے پردے لٹکانا مکروہ ہے، باقی مذکورہ حدیث کا حوالہ ان مولوی صاحب سے دریافت کرلیا جائے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وقد بينا هذا الفصل إلا أنه ذكره هنا بلفظ يستدل به على أنه كان من مذهبه أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء ‌الإباحة، وأن الحرمة بالنهي عنها شرعا."

(کتاب الإکراہ، باب تعدي العامل، ج: 24، ص: 77، ط: دار المعرفة)

الدر المختار میں ہے:

"(‌ولا ‌بأس ‌بنقشه خلا محرابه) فإنه يكره لأنه يلهي المصلي. ويكره التكلف بدقائق النقوش ونحوها خصوصا في جدار القبلة قاله الحلبي. وفي حظر المجتبى: وقيل يكره في المحراب دون السقف والمؤخر انتهى.

وفي الرد:(قوله لأنه يلهي المصلي) أي فيخل بخشوعه من النظر إلى موضع سجوده ونحوه، وقد صرح في البدائع في مستحبات الصلاة أنه ينبغي الخشوع فيها، ويكون منتهى بصره إلى موضع سجوده إلخ وكذا صرح في الأشباه أن الخشوع في الصلاة مستحب. والظاهر من هذا أن الكراهة هنا تنزيهية فافهم (قوله ويكره التكلف إلخ) تخصيص لما في المتن من نفي البأس بالنقش، ولهذا قال في الفتح: وعندنا لا بأس به، ومحمل الكراهة التكلف بدقائق النقوش ونحوه خصوصا في المحراب اهـ فافهم."

(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 658، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں