میرے والد صاحب تقریباً 54 سال سے ایک مسجد میں امامت و خطابت و تدریسی امور سر انجام دے رہے ہیں اور مسجد کی ابتدائی تعمیر میں اہم کردار رہا ہے گویا کہ بانیان مسجد میں سے ہیں اور یہاں تک کہ انتظامی امور بھی والد صاحب ہی کی مشاورت اور ماتحت رہے ہیں اور والد صاحب ہی نے مسجد کے انتظامات کے لیے اپنی نگرانی میں مختلف ادوار میں مسجد کمیٹیاں تشکیل دی تھیں اور ساتھ ساتھ مدرسہ بھی قائم کیا، جس کے والد صاحب ہی بانی ، مہتمم و صدر ہیں، جس سے سینکڑوں بچے و بچیاں قرآن و حدیث کے علوم سے مستفید ہوئے اور الحمد اللہ آج تک ہو رہے ہیں، چناں چہ آج سے تقریبا 22 سال قبل مسجد کے انتظامی امور کے سلسلے میں والد صاحب نے اپنی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ،جس کی سربراہی ایک حافظ صاحب کے پاس تھی، تقریباً انہوں نے 12 سال مسجد کے انتظامی امور سر انجام دیئے اور پھر ان پر مختلف الزامات لگنے شروع ہوئے، چناں چہ انہیں معزول کر دیا گیا اور پھر ان سے حساب کتاب کا مطالبہ کیا گیا تو یہ مکمل حساب کتاب دینے سے قاصر رہے، پس 12 سال کی ٹوٹل بچت تقریباً 65 ہزار روپے ظاہر کیے اور وہ بھی قسطوں کی صورت میں ادا کیے، پھر حضرت والد صاحب نے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی انہوں نے بھی تقریباً 10 سال مسجد کے انتظامی امور چلائے اور پھر ان پر بھی کر پشن و خیانت کے الزامات لگے جو کہ ثابت بھی ہوئے اور اب یہ مسجد کی رقم قسط وار ادا کرنے کے حامی ہیں، پھر اس وجہ سے کمیٹی کے بڑے کو بھی معزول کر دیا گیا، چناں چہ حسبِ سابق والد صاحب نے علماء کرام و مفتیان عظام سے مشاورت کی، پھر ایک مفتی صاحب کی سربراہی میں شرائط و ضوابط کے تحت با شرع و دیانت دار و امانت دار 4 افراد پر ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی، چناں چہ پھر ایک غیر متعلقہ شخص نے مسجد کے امور میں مداخلت کرتے ہوئے مذکورہ سابقہ ممبر ان کے نام ایک پرچی پر لکھ کر منتخب کمیٹی کو پیش کیے کہ انہیں بھی کمیٹی میں شامل کیا جائے، وگرنہ کام کرنے نہیں دوں گا ،چناں چہ فساد سے بچنے کے لیےان سابقہ ممبر ان کو بھی شامل کیا گیا، مگر انہوں نے خود کوئی کام نہیں کیا، بلکہ وہ غیر متعلقہ شخص از خود کام میں مداخلت کرتے ہوئے منتخب کمیٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے کام کرواتا اور کوئی حساب و کتاب پیش نہیں کرتا تھا، چناں چہ جب پانی سر سے گزرا اور مسلسل کر پشن کی شکایتیں کی جارہی تھیں تو منتخب ممبر ان نے پر زور مطالبہ کیا کہ حساب کتاب پیش کیا جائے تو بجائے حساب و کتاب پیش کرنے کے ایک دن جمعہ کی نماز کے بعد ایک اور غیر متعلقہ شخص ( جو کہ مسجد کے نمازی بھی نہیں ہیں اور نہ ہی اہل محلہ ہیں) اپنے دس بارہ افراد کے ساتھ مسجد میں آئے اور منتخب کمیٹی سے سخت بد کلامی اور لڑائی جھگڑا کیا اور مسجد کا پر امن ماحول خراب اور مسجد کا تقدس پامال کیا اور ایک خود ساختہ کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا، بلکہ منتخب کمیٹی کو ہٹا دینے کا بھی خود ساختہ اعلان کیا، جب کہ حسبِ دستور والد صاحب کی مشاورت و سر پرستی میں منتخب کمیٹی موجود ہے۔ پس حسد بغض و عناد کی بنیاد اور مسجد و مدرسہ پر قبضہ اور حاکمیت کےلیے دین بیزار دنیا دار اشخاص فتنہ و فساد برپا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
آپ سے چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1. جن حضرات نے مسجد کے پیسوں میں خیانت کی ان کے بارے میں شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے ؟
2. خائن اشخاص کو دوبارہ مسجد کے امور میں دخل اندازی کی اجازت ہے؟ بلکہ کمیٹی کے ممبر بننے کی شرعی گنجائش موجود ہے ؟ جب کہ امانت دار لوگ موجود ہوں۔
3. جو شخص کمیٹی کا ممبر نہ ہو اور شہرت بھی اچھی نہ رکھتا ہو ایسے شخص کا مسجد کے مالی و انتظامی امور میں مداخلت کرنا شریعت کی روسے کیسا ہے ؟
4. جو شخص مسجد و مدرسہ کے معاملات میں دخل اندازی کرے اور علماء کرام کی تحقیر کرے، بلکہ دینی و تدریسی امور میں مداخلت کر کے بیجا پریشان کرے ایسے شخص کے بارے میں قرآن و حدیث کیا فرماتا ہے؟
5 غیر متعلقہ شخص کا اپنے دس/ بارہ افراد کے ساتھ مسجد میں آکر بد کلامی و لڑائی جھگڑا اور مسجد کے تقدس کو پامال کرنے اور منتخب کمیٹی کی بے عزتی کرنے کے بارے میں شریعت مطہرہ کیا حکم دیتی ہے ؟
6. جو شخص مسجد و مدرسہ کو چندہ دے یا پھر خود خرچ کرے اور پھر احسان جتلائے اور لوگوں کو بتلائے کہ میں مسجد و مدرسہ پر خرچ کرتا ہوں، اس لیے کہ میری بات مانی جائے اور مجھے مسجد کا ممبر منتخب کیا جائے تو کیا ایسے شخص کو خرچ کرنے پر اجر ملے گا؟ اور کیا ایسے شخص کو خرچ کرنے کی بنیاد پر ممبر منتخب کیا جا سکتا ہے ؟ جبکہ وہ مسجد کا نمازی بھی نہ ہو اور اہل محلہ بھی نہ ہو ؟
7. والد صاحب و مفتی صاحب و علماء کرام و نمازیوں کی منتخب کمیٹی کی شرعی کیا حیثیت ہے ؟ جو کہ با شرع اور علم دین سے آرستہ اور امانت دار و دیانت دار اور معاشرے میں اچھی اہمیت حامل افراد پر مشتمل ہے ؟
جواب سے پہلے چند باتوں کا جاننا ضروری ہے:
1،2۔جن لوگوں پرمسجد کی رقم میں خیانت کرنا ثابت ہوچکا ہےان پر خیانت کردہ مال کا لوٹانا ضروری ہے،اور امانت دار لوگو ں کی موجود گی میں ان کو مسجد کا کمیٹی کا ممبر بنانا جائز نہیں ہے۔
3،4،5۔جو شخص کمیٹی کا ممبر نہ ہو ،اس کے باوجود وہ مسجد کے معاملات میں مداخلت کرے اوردیگر کمیٹی اراکین مفتیان وعلماء کی تذلیل وتحقیر کا مرتکب ہو اور اور ان کو بے جا پریشان کرے اور مسجد کے اندر فساد اور تفرقہ بازی کا سبب بنے ،تو دیگر کمیٹی ارکان کے لیے ایسے شخص کو مسجد کے معاملات سے بر طرف کرنا ضروری ہے، اور ایسے شخص پر علماء کی توہین کی وجہ سے کفر کا اندیشہ ہے۔
6۔مسجد کے مالی معاملات میں خرچ کرنے کی بنیاد پر کسی کو کمیٹی کارکن بنانا یہ کوئی معقولی وشرعی سبب نہیں ،جب تک اس کے اندر اہلیت نہ پائی جائےاسی طرح ایسےشخص کا مسجد اور اہلِ مسجد کے ساتھ مخلص ہو نا بھی ضروری ہے۔اور جو شخص خرچ کرنے کے بعد اس کو جتلاتاہو ،ایسا شخص قرآن وحدیث کی رو سے ثواب کا مستحق نہیں ہے۔
7۔ سائل کے والد صاحب کی تشکیل دی ہوئی کمیٹی صلحاء وعلماء امانت دار و منتظم افراد پر مشتمل ہےتو ایسے افراد کے لیے اخلاص کےساتھ مسجد کے معاملات میں تعاون کرنا درست ہے بلکہ خیر کا باعث ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر وأقام الصلاة وآتى الزكاة» سورة التوبة آية 18 ".
ترجمہ: ”اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نمازوں کے پابندی کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں“ (سورۃ التوبہ: ۱۸)“۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف درر فغيره بالأولى (غير مأمون) أو عاجزا أو ظهر به فسق كشرب خمر ونحوه فتح أو كان يصرف ماله في الكيمياء نهر بحثا (وإن شرط عدم نزعه) أو أن لا ينزعه قاض ولا سلطان لمخالفته لحكم الشرع فيبطل كالوصي، فلو مأمونا لم تصح تولية غيره أشباه."
"قال في الإسعاف: و لايولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه لأن الولاية مقيدة بشرط النظر و ليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود، و كذا تولية العاجز؛ لأن المقصود لايحصل به."
(کتاب الوقف، ج:4، ص: 380۔381-382،، ط:سعید)
مشکاۃالمصابیح میں ہے:
"وعن أنس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: «لا إيمان لمن لا أمانة له ولا دين لمن لا عهد له» . رواه البيهقي في شعب الإيمان"۔
(کتاب الایمان، الفصل الثانی، ج: 1، ص: 17، ط:المكتب الإسلامي )
ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ہم سے بیان کرتے اور یہ نہ کہتا ہوں کہ جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه ، كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق ".
(کتاب الودیعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج: 4، ص: 388، ط: رشیدیة)
البحر الرائق میں ہے:
" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده."
(كتاب السير، باب أحكام المرتدين، ج: 5، ص: 134، ط: دار الكتاب الإسلامي)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
اگر مجھے کمیٹی میں شامل نہ کیا گیا تو میں مسجد بند کروادوں گا“ کہنے والے کو کمیٹی میں شامل کرنا
سوال : اگر ایک مقتدی مسجد میں امام مسجد کی موجودگی میں یہ بات برملا کہے کہ اگر مجھے انتظامیہ کا عہدہ نہ دیا گیا تو میں اس مسجد کو بند کروادوں گا۔ شریعت کے مطابق ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ وہ کسی قسم کا مسلمان ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب ایسا شخص فاسق ہے، اس کو مسجد کے معاملات میں کسی صورت میں شامل نہ کیا جائے ۔
(کتاب الصلاۃ، مسجد کے مسائل، ج: 3، ص: 255، ط: مکتبہ لدھیانوی)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
سب وشتم اہل اسلام خود کبیرہ گناہ اور موجب فسق و معصیت ہے، اور ایسا بد زبان خائن متولی اور منتظم بتانے کے لائق نہیں ہے؛ بلکہ لائق عزل ہے ،صلحاء مسلمین اس کو معزول کر کے دوسرے شخص امین و متولی بنا ئیں۔
(کتاب الوقف، وقف کے مسائل، ج: 13، 423، ط: دار الإشاعت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102718
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن