بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امامِ راتب کی موجودگی میں کسی اور کا نماز پڑھانا/ مسجد کمیٹی میں شمولیت کا اہل کون شخص ہے؟


سوال

ہماری سوسائٹی میں تین مساجد ہیں،جو کہ تینوں دیوبندی مسلک کی ہیں، اس سوسائٹی میں رہائشیوں کی تعداد بھی  تقریباً95فیصد دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے، اور بقیہ 5فیصد، اہلحدیث، شیعہ اور بریلوی حضرات پر مشتمل ہے۔

ان مساجد کی باقاعدہ کوئی کمیٹی متعین نہیں ہے، بلکہ اس سوسائٹی کے بااثراور مینجمنٹ کےافراد ہی مساجد کے انتظامات بطورِ کمیٹی کے سنبھالتے ہیں، تینوں مساجد کے ائمہ علماءِ دین ہیں، چوں کہ اس علاقے میں بریلویوں کی کوئی مسجد نہیں تھی، اس لیے بریلویوں نے اصرار کیا کہ ہماری بھی کوئی علیحدہ مسجد ہونی چاہیے، جس پر سوسائٹی کے منتظمین نے یہ فیصلہ کیا کہ الگ مسجد بنانے کے بجائے، مذکورہ تین مساجد میں سے ایک مسجد کے انتظامات بریلویوں کے حوالے کردیے جائیں، جس پر اہلِ علاقہ نے کافی شدید ناراضگی کا اظہار کیا، اور منتظمین کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا، البتہ سوسائٹی کے ایک بلاک میں پانچ، چھ سو گز کی جگہ ان کے لیے مسجد کے طور پر مختص کرکے وہاں تعمیرات شروع کروادیں۔

سوسائٹی کے منتظمین چوں کہ کاروباری ذہنیت کے افراد ہیں، اس لیے حال میں ہی وہ ایک مشہور بریلوی شخصیت کو جمعہ پڑھانے کے لیے سوسائٹی میں لے کر آئے، جو کہ عالم نہیں تھے اور انہیں ہماری ہی جامع مسجد میں جمعہ پڑھانے کے لیے کھڑا کردیا ، اس پر سوسائٹی میں دیوبندیوں کی اکثریت کی وجہ سےکافی بدمزگی اور لڑائی جھگڑے ہوئے، اور چوں کہ یہ مسلک ومشرب کا معاملہ تھا، اس لیے قتل تک بھی بات پہنچ جانے کا امکان تھا،اوریہ کام سوسائٹی کے منتظمین نے امامِ مسجد کو باخبر کیے بغیرکیا تھا۔

نیز سوسائٹی کے منتظمین جو مسجد کمیٹی کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں، ان میں سے اکثر دنیادار ہیں، اور وہ افراد بھی ہیں، جنہوں نے پوری زندگی بینک میں کام کیااور اب ریٹائرمنٹ کے بعد مسجد کی کمیٹی کے امور سر انجام دے رہے ہیں، ان میں سے بعض افراد ائمہ مساجد پر جو کہ علماء بھی ہیں، طعن کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک ملازم کا سا سلوک کرتے ہیں، مثلاً کبھی یہ کہتے ہیں کہ آپ کی تجوید درست نہیں، کبھی یہ کہ آپ صحیح نہیں پڑھتے ، کبھی یہ کہ اس لفظ کو آپ نے صحیح نہیں کھینچا وغیرہ، اور کبھی یہ کہتے کہ میں قرآن کے ترجمے سے آپ کی غلطیاں پکڑلیتا ہوں۔

1:اب سوال یہ ہے کہ کیا مسجد کمیٹی کا صرف اپنے دنیاوی مفاد کی وجہ سے ایک غیر مسلک کے آدمی کو مسجد میں جمعہ پڑھانے کے لیے لے کر آنا، درست ہے؟ جب کہ پہلے سے مقرر کردہ امام بھی موجود ہے، اور  بسا اوقات نئے آنے والے کی داڑھی بھی مکمل نہیں  ہوتی۔

2:کس طرح کے افراد مسجد کمیٹی کے فرائض سرانجام دینے کے اہل ہیں؟

3:نیز مسجد کمیٹی کے افراد  کا امام صاحب کو ٹوکنا اور یہ کہنا کہ آپ کی قرائت یا تلفظ درست نہیں،کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں نماز پڑھانے کا حق دار وہی آدمی ہے، جو اس مسجد میں مستقل امام کی حیثیت سے موجود ہو،مقررہ امام  کی اجازت کے بغیر کسی اور آدمی کے لیے اس کی جگہ پر کھڑا ہونا یا انتظامیہ کا کھڑا کرناجائز نہیں ہے، نیز جو شخص عملاً یا اعتقاداً بدعات میں مبتلا ہو،یا جو داڑھی کٹاکر ایک مشت سے کم کراتا ہوایسے شخص کو  مستقلاً امام بنانا یا امام کے ہوتے ہوئےعارضی امام بنانا درست نہیں ہے، اور ایسے شخص کی اقتداء میں نماز مکروہ ہے۔

1: لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اولاً تو مسجد کمیٹی کاامامِ مسجد کی موجود گی میں امام کی اجازت کے بغیرکسی شخص کو جمعہ پڑھانے کے لیے لے کرآنا ہی درست نہیں، بلکہ امام کی حق تلفی ہےنیزآنے والا شخص اگر واقعۃً بریلوی مسلک سے تعلق بھی رکھتا ہےا ور اعتقاداً یا عملاً بدعات میں بھی مبتلاہے، تو ایسے آدمی کو اہلِ حق کی مسجد میں امام مقرر کرنا جائزنہیں ہے۔

2:مسجدکے انتظام وانصرام سنبھالنے کے لیے بنیادی طور پر وہ افراد اہل ہیں، جو کہ امین ہوں(خائن نہ ہوں)، دین دار ہوں، مسجد کے وقف املاک کا درست استعمال اور مسجد کےحسابات صاف، صاف رکھتے ہوں اور مسجد کے انتظامات کو احسن طریقے سے چلانے پر قادر ہوں۔

لہٰذا سوسائٹی کے منتظمین اگر ان صفات کے حامل ہوں تو بہتر، بصورت دیگر ان  کو چاہیے کہ ان صفات کے حامل افراد کو مسجد کانظم چلانے کے لیے منتخب کریں، باقی ٗ مسجد کمیٹی کے افراد اگران صفات کے ساتھ، ساتھ خوش اخلاق، رحم دل، منصف مزاج، اور اہلِ علم خصوصاً ائمۂ مسجد اور مؤذنین کی دل سے تعظیم کرنے والے بھی ہوں، تو بہت ہی مستحسن ہے۔

3:اگر امام صاحب کی تجوید اور قراءت میں واقعی کوئی سقم یا خرابی ہے، تو اس صورت میں امام صاحب کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا جائز ہے، خواہ یہ نشاندہی مسجد کمیٹی کا کوئی فرد کرے یا کوئی بھی تجوید وقرآت کو جاننے والا شخص کرے، تاہم یہ نشاندہی ادب اور شائستگی کے دائرے میں ہواور امام صاحب کو بھی یہ غلطی خندہ پیشانی سے تسلیم کرنی چاہیے،لیکن اگر امام صاحب کی تجوید بالکل درست ہے، تو امام صاحب کوبلاوجہ روک ٹوک کرکے پریشان کرنا ٗ غلط اور ناجائز ہے۔

لہٰذا امام صاحب کی تجوید میں اگر واقعۃً کوئی شک وشبہ ہو، یا غلطی ہونے، نہ ہونے کا معاملہ متنازع فیہ ہو، تو پھربغیر تصدیق کے روک ٹوک کرنا ٗ  نامناسب طریقہ ہے، ایسی صورت میں کسی ماہر مجود قاری کو امام صاحب کی قراءت سنائی جائے،اور وہ جو رائےدیں، اسی کے مطابق امام صاحب اور مسجد کمیٹی کو عمل کرنا چاہیے۔

حاشية ابن عابدين   میں ہے:

"(ويكره) تنزيها (إمامة عبد) ولو معتقا قهستاني. عن الخلاصة، ولعله لما قدمناه من تقدم الحر الأصلي، إذ الكراهة تنزيهية فتنبه (وأعرابي) ومثله تركمان وأكراد وعامي (وفاسق وأعمى) ونحوه الأعشى نهر (إلا أن يكون) أي غير الفاسق (أعلم القوم) فهو أولى (ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة.

(قوله وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك، كذا في البرجندي إسماعيل وفي المعراج قال أصحابنا: لا ينبغي أن يقتدي بالفاسق إلا في الجمعة لأنه في غيرها يجد إماما غيره. اهـ. قال في الفتح وعليه فيكره في الجمعة إذا تعددت إقامتها في المصر على قول محمد المفتى به لأنه بسبيل إلى التحول . . . وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق.(قوله أي صاحب بدعة) أي محرمة."

(ص:٥٥٩، ج:١، کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ط: ايج ايم سعيد)

وفيه أيضا:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا (إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما.

(قوله مطلقا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه."

(ص:٥٥٩، ج:١، كتاب الصلاة، باب الإمامة، ط: ايج ايم سعيد)

فتح القدير   میں ہے:

"(قوله: وهو) أي القدر المسنون في اللحية (القبضة) . . . فإن قلت: يعارضه ما في الصحيحين عن ابن عمر رضي الله عنهما عنه عليه الصلاة والسلام «أحفوا الشوارب وأعفوا اللحية» فالجواب: أنه قد صح عن ابن عمر راوي هذا الحديث أنه كان يأخذ الفاضل عن القبضة . . . فأقل ما في الباب إن لم يحمل على النسخ كما هو أصلنا في عمل الراوي على خلاف مرويه مع أنه روي عن غير الراوي وعن النبي صلى الله عليه وسلم يحمل الإعفاء على إعفائها من أن يأخذ غالبها أو كلها، كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم كما يشاهد في الهنود وبعض أجناس الفرنج، فيقع بذلك الجمع بين الروايات، ويؤيد إرادة هذا ما في مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي عليه الصلاة والسلام: جزوا الشوارب وأعفوا اللحى خالفوا المجوس فهذه الجملة واقعة موقع التعليل. وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد."

(ص:٣٤٧، ج:٢، کتاب الصوم، باب ما یوجب القضاء والکفارۃ، ط: دار الفکر، بیروت)

البحر الرائق   میں ہے:

"وقيد في السراج الوهاج تقديم الأعلم بغير الإمام الراتب، وأما الإمام الراتب فهو أحق من غيره، وإن كان غيره أفقه منه."

(ص:٣٦٨، ج:١، کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ط: دار الكتاب الإسلامي)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"ذكر هلال رحمه الله: إذا وقف الرجل أرضه، ولم يشترط ‌الولاية لنفسه ولا لغيره إن الوقف جائز والولاية للواقف، وهكذا ذكر الخصاف في وقفه. قال هلال: وقد قال قوم: إن ‌الواقف لو شرط ‌الولاية لنفسه كانت ‌الولاية له، وإن لم يشترط فلا ولاية له، قال مشايخنا: الأشبه أن يكون هذا قول محمد؛ لأن من أصله أن التسليم إلى القيم شرط صحة الوقف، فإذا سلم لا يبقى له ولاية، وجه هذا القول: أن ولايته كانت بحكم الملك وبالوقف أزال ملكه فتزول ولايته، وجه ما ذكر هلال: أن ‌الواقف أقرب الناس إلى هذا الوقف فيكون أولى بولايته، ألا ترى أن المعتق أولى الناس بالمعتق؛ لأنه أقرب إليه."

(ص:١٣٤، ج:٦، کتاب الوقف، الفصل السادس فی الولاية للوقف، ط: دار الكتب العلمية)

الفتاوي الهندية میں ہے:

"الصالح للنظر من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف هكذا في فتح القدير وفي الإسعاف ‌لا ‌يولى ‌إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه ويستوي فيه الذكر والأنثى وكذا الأعمى والبصير وكذا المحدود في قذف إذا تاب، ويشترط في الصحة بلوغه وعقله كذا في البحر الرائق."

(ص:٤٠٨، ج:٢، کتاب الوقف، الباب الخامس، ط: دار الفکر،بیروت)

العقود الدرية في تنقيح فتاوي الحامدية   میں ہے:

"(سئل) في الصالح للنظر من هو؟

(الجواب) : هو من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف، هكذا في فتح القدير وفي الإسعاف ‌لا ‌يولى ‌إلا أمين قادر بنفسه أو نائبه ويستوي في ذلك الذكر والأنثى وكذا الأعمى والبصير وكذا المحدود في قذف إن تاب ويشترط للصحة عقله وبلوغه."

(ص:١٩٦، ج:١، کتاب الوقف، الباب الثالث في أحكام النظار وأصحاب الوظائف، ط: دار المعرفة)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال [۲۹۳۵]  تولیت مسجد کے لیے متشرع ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ مسلمان متدین موجود ہو تو اس کو چھوڑ کر ناحق جو غیر متدین ہو، اس کو متولی بنانا کیسا ہے؟متولی مسجد کس درجہ کا مسلمان ہونا چاہیے؟اگر واقف جائیداد کو خود ہی متولی قرار دیدیا جائے تو کیسا ہے؟

الجواب حامداً ومصلياً :

1: متولی ایسے آدمی کو بنایا جائے جو امین ہو (خائن نہ ہو) دیندار ہو ( بد دین نہ ہو ) انتظامِ وقف کی اہلیت اور اس سے دلچسپی رکھتا ہو، اس کو بلا وجہ ہٹا کر، یا ابتداءاً کسی فاسق غیر متدین کو متولی بنانا گناہ ہے: وفي الإسعاف: لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه؛ لأن الولاية مقيدة بشرط النظر، وليس من النظر تولية الخائن؛ لأنه يخل بالمقصود، وكذا تولية العاجز؛ لأن المقصود لا يحصل به. بحر۔2:اس کا جواب نمبر : 1سے واضح ہے۔3:درست ہے: "وإن جعل الواقف غلة الوقف لنفسه أو جعل الولاية إليه، صح: أى لو شرط عند الإيقاف ذلك، اعتبر شرطه. بحر۔ فقط واللہ اعلم ۔‘‘

(ص:٣٤٧، ج:١٤، کتاب الوقف، باب ولایۃ الوقف، ط: ادارۃ الفاروق، کراچی)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

’’خلاصہ کلام یہ کہ متولی اور مہتمم عالم باعمل ہونا چاہیے، اگر ایسا میسر نہ ہوسکے تو صوم وصلاۃ کا پابند ، امانتدار، مسائل وقف کا جاننے والا، خوش اخلاق اور رحم دل، منصف مزاج، علم دوست، اہل علم کی تعظیم وتکریم کرنے والاہو،جس میں یہ صفات زیادہ ہوں، اسی کو متولی اور مہتمم بنانا چاہیے۔‘‘

(ص:٧٥، ج:٩، کتاب الوقف، احکام المساجد والمدارس، ط: دار الاشاعت، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں