بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے دی جانے والی رقم خود استعمال کرنا


سوال

مسجد  میں  دینے کے  لیے کوئی رقم دی ، لیکن وہ بندہ خود محتاج ہو تو کیا وہ خود استعمال کرسکتا ہے  وہ  رقم؟

جواب

وکیل بالصدقہ اور وکیل بالزکاۃ کے لیے  صدقہ یا زکاۃ کا مال  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ زکاۃ  کا مستحق ہو،  لہذا مذکورہ  مال قبضہ میں لینے کے بعد بھی وکیل اس کا مالک نہیں بنے گا، بلکہ اس کے  ہاتھ  میں  یہ  مال امانت رہے گا   جسے موکل کی ہدایت کے مطابق صرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر موکل نے وکیل کو  مکمل اختیار دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو، جس طرح چاہو کسی اچھے مصرف میں صرف کردو" اس صورت میں اگر وکیل  زکاۃ  کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ مںں اگر  موکل نے  اس شخص کو مکمل اختیار نہ دیا ہو، بلکہ  مسجد  میں دینے کا کہا ہو تو  اس شخص کے لیے یہ صدقہ کا مال خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اسی مسجد میں  دینا لازم ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 227):

"وَلِلْوَكِيلِ بِدَفْعِ الزَّكَاةِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَى وَلَدِ نَفْسِهِ كَبِيرًا كان أو صَغِيرًا وَإِلَى امْرَأَتِهِ إذَا كَانُوا مَحَاوِيجَ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُمْسِكَ لِنَفْسِهِ شيأ اه  إلَّا إذَا قال ضَعْهَا حَيْثُ شِئْتَ فَلَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا لِنَفْسِهِ، كَذَا في الْوَلْوَالِجيَّةِِ".

فتاوی شامی میں ہے:

"و لو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".

(2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

الموسوعة الفقہیة    میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر و لا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".

(45/ 87،  الوکالة، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، ط: طبع الوزارة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں