بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کبیر کی تحدید میں طول و عرض دونوں کا اعتبار کیا جائے گا


سوال

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ مسجد کبیر کی حد تعیین کرنے کے بارے میں دارالعلوم دیوبند اور جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کا فتاوی مختلف کیوں؟

براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں، جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فتاوی سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کبیر کی حد تعیین کرنے کے بارے میں لمبائی اور چوڑائی دونوں کی اعتبار کیا جائے گا اور دار العلوم دیوبند کے فتاوی سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کبیر کی حد تعیین کرنے کے بارے میں صرف لمبائی کا اعتبار کیا جائے گا۔

**دارالعلوم دیوبند کا فتوی: شریعت کے بعض احکام میں جو مسجد کبیر اور مسجد صغیر کا فرق ہے، ان میں مسجد کبیر سے مراد وہ مسجد ہے جو ۴۰/ ذراع ہو، یعنی: ۶۰/ فٹ (۱۸/ میٹر)ہو۔ اور مفتی بہ قول کے مطابق اس میں صرف لمبائی کا اعتبار ہوتا ہے، چوڑائی کا اعتبار نہیں ہوتا(امداد الاحکام، ۱: ۴۴۴،مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی)؛ لہٰذا جو مسجد ۱۸/میٹر لمبی ہو، وہ شرعاً مسجد کبیر ہے اور جس کی لمبائی اس سے کم ہو وہ مسجد صغیر ہے۔

**جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کا فتوی: جو مسجد چالیس شرعی گز لمبی اور چالیس شرعی گز چوڑی ہو وہ مسجدِ کبیر ہےاور جو اس سے کم ہو وہ مسجد ِصغیر ہے ۔ ایک شرعی گز ڈیڑھ فٹ (اٹھارہ انچ) کا ہوتا ہے، اس حساب سے مسجدِ کبیر وہ ہو گی جو ساٹھ فٹ لمبی اور ساٹھ فٹ چوڑی ہو۔

جواب

واضح رہے کہ   مسجد کبیر اور صغیر کی تحدید کے مسئلے کی بنیادشامی کی درج ذیل عبارت ہے:

"وأن المختار في تقدير الكبيرة أربعون ذراعا."

ترجمہ:"مسجد کبیر تعیین میں مختار قول 40(شرعی)گز ہے۔"

(كتاب الصلاة،باب الامامة،ج:1،ص:585،ط:سعید)

شرعی گز ڈیڑھ فٹ کا ہوتا ہے،اس لحاظ سے 60 فٹ ہوئے،لیکن یہاں اس بات کی تفصیل نہیں کہ  اس میں صرف لمبائی مراد ہے یا لمبائی اور چوڑائی دونوں  مراد ہے ،چناں چہ دار الافتاء دار العلوم دیوبند کے جس فتوی کا آپ نے ذکر کیا یہ دار العلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر شائع فتاوی میں سے ہے،جس میں  صرف لمبائی کے اعتبار کیے جانے کو مفتی بہ لکھا گیا اور حوالہ میں امداد الاحکام کا حوالہ دیا گیا،چناں چہ امداد احکام مصنف علامہ ظفر احمد عثمانی  کا فتوی درج ذیل ملاحظہ ہو:

(ج:1،ص:444،ط:دار العلوم کراچی)

لیکن خود  دار العلوم دیوبند کے مطبوعہ فتاوی (مصنف مفتی عزیز الرحمن عثمانی،مفتی اول دارالعلوم دیوبند)  میں دونوں قول لکھے ہیں :

"سوال:(283)شامی وغیرہ میں جو مسجد کبیر کی تعریف اربعین یا خمسین یا ستین ذراع لکھتے ہیں؛اس سے کس طرف کی پیمائش مراد ہے طول یا عرض یا مجموعہ اطراف چہارگانہ؟

الجواب:.........بظاہر مراد طول ہےیا طول اور عرض دونوں اس قدر ہوں۔"

(ج:13،ص:281،ط:دار الاشاعت)

اسی طرح دار العلوم دیوبند  کے مفتی محمود الحسن گنگوہی ؒ فتاوی محمودیہ میں لکھتے ہیں:

"جو مسجد چالیس گز(شرعی) لمبی اور اتنی ہی چوڑی ہو وہ مسجد کبیر ہے،جو اس سے چھوٹی ہو وہ مسجد صغیر ہے ۔"

(ج:14،ص:385،ط:فاروقیہ)

چناں چہ ہمارے دار الافتاء کا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ مسجد کبیر کی تحدید میں  چالیس گز لمبائی اور چوڑائی دونوں کا اعتبار کیا جائے گا ،کیوں کہ فقہی  عبارات میں اصل معیار مسجد کو کبیر و صغیر ہونے کو بنایا گیا ہے اور کبیر اور صغیر ہوناحجم کو بتاتا ہےاور کسی چیر کے حجم کی پیمائش میں  طول و عرض دونوں کو دخل ہے،یہی وجہ ہے کہ  کوئی مسجد  طول میں  تو 40 گز ہو  اور عرض  چند گز ہو تو   صورتاً و عرفاً  بھی اس کو مسجد کبیر (بڑی مسجد)  شمارنہیں  کیا جاتا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں