بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا سامان اور بورنگ کا پانی محلوں کے گھروں میں استعمال کرنا


سوال

مسجد کا سامان مثلاً اسٹینڈ والے پنکھے، جنریٹر اور مسجد کی بورنگ کا پانی سوسائٹی کے پارک یا محلے کے گھروں میں استعمال کرنا کیسا ہے؟ عاریتًا یا بغیر عاریت کے، دونوں صورتوں میں؟

جواب

مسجد کا سامان کسی کو عاریت پر یعنی بغیر عوض کے ذاتی استعمال کے لیے دینا جائز نہیں ہے۔ کرایہ پر دینے  کا حکم یہ ہے کہ اگر واقف نے کوئی شرط عائد کی ہو تو اس کی تعمیل کی جائے گی، الایہ کہ وہ شرط وقف کے مفاد کے خلاف ہو۔ اگر موقوفہ اشیاء فی الوقت مسجد یا مدرسے کے استعمال میں نہ ہوں، اور  آمدن کی ضرورت ہو یا کرایہ پر دینے میں مسجد، مدرسے کا فائدہ ہو تو بوقتِ ضرورت موقوفہ اشیاء عام بازاری نرخ پر کرایہ دی جائیں اور اگر متولی اپنے کسی عزیز کو دے تو عام نرخ سے زیادہ پر دے۔ بہرحال اگر متولی یا مسجد کمیٹی اس میں مسجد کا فائدہ اور مصلحت سمجھیں تو وہ مسجد کے سامان کو وقتی طور پر معقول کرایہ پر دے کر مسجد  کی آمدنی میں اضافہ کرسکتی ہے۔ البتہ ایسے شخص کو یا ایسے کام میں یہ اشیاء کرائے پر نہ دی جائیں جہاں ان کے ضیاع کا گمان ہو۔

باقی اگر بورنگ  مسجد  کی اجتماعی رقم سے کی گئی ہو  اور  رقم دینے والوں سے اس بات کی اجازت نہ لی گئی ہو کہ پانی پڑوس کو بھی دیا جائے گا  تو اس صورت میں مسجد کی بورنگ کے پانی سے کسی کو لائن لگاکر پانی دینا  درست نہیں، مسجد کی ضروریات اور نمازیوں کی حاجت کو مقدم رکھنا لازمی ہے۔ البتہ اگر پانی مسجد  کی ضرورت سے زائد ہو اور کسی وقتی ضرورت کے لیے چندہ دہندگان کی اجازت کے ساتھ پڑوسی پانی لے لے اور  اس پر جو اخراجات آئیں  (مثلًا جنریٹر  یا بجلی وغیرہ  کے) وہ مسجد کے فنڈ میں جمع کرادیں  تو اس کی گنجائش ہے۔ اور اگر واقف کی طرف سے اجازت ہو  یا مسجد کے لیے وقف زمین میں اہلِ محلہ نے رقم ملاکر اسی غرض سے بورنگ کرائی ہو کہ نمازیوں کی ضرورت کے ساتھ ساتھ محلے والے بھی پانی استعمال کریں گے اور اس کے بغیر پانی کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو تو اسے استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

”ولاتجوز إعارة أدواته لمسجد آخر اهـ.“

 ( ص۴۷۱ مطبوعه دارالکتب العلمیة بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

”متولي المسجد لیس له أن یحمل سراج المسجد إلی بیته وله أن یحمله من البیت إلی المسجد“، کذا في فتاوی قاضي خان اهـ‘‘.

 ( ۲:۴۶۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)

وفي الخانیة:

’’قال الفقیه أبو جعفر: إذا لم یذکر الواقف في صک الوقف إجارة الوقف، فرأی القیم أن یواجرها ویدفعها مزارعةً، فما کان أدر علی الوقف وأنفع للفقراء فعل‘‘.

 (خانیہ ۳؍۳۳۲ زکریا)

وفي فتح القدیر :

’’وإنما یملك الإجارة المتولي أو القاضي‘‘.

(فتح القدیر / کتاب الوقف ۶؍۲۲۴ بیروت)

فقط والله أعلم  

 


فتوی نمبر : 144202200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں