بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا پانی ذاتی استعمال کے لیے گھر لے جانے کا حکم


سوال

کیا مسجد کا پانی اپنے گھر لے جانا اور اس کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا درست ہے؟ اگر کوئی شخص مسجد سے پانی لیتا ہے اور اس کی جو قیمت بنتی ہے وہ چندہ بکس میں ڈال دیتا ہے تو کیا اس طرح بھی درست ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ مسجد کا پانی عموماً مسجد کے لیے ہی وقف  ہوتا ہے، یعنی صرف  مسجد کے استعمال  کے لیے ہوتا ہے، اگر  پانی کا انتظام کرنے والے واقف کی جانب سے پانی صرف مسجد کے لیے ہی وقف ہو تو اس کا مسجد سے باہر لے جانا   اور  ذاتی استعمال  میں لانا درست نہیں اور اگر واقف کی جا نب سے اس کی  اجازت ہو کہ ذاتی استعمال بھی کیا جاسکتا ہے تو  مسجد کا پانی  دوسری جگہ لے جانا بھی درست ہے،اس میں بھی بہتر یہ ہے بوقتِ ضرورت پانی استعمال کیا جائے تو  بھی  عرفی قیمت کے مطابق اس کے  پیسے مسجد کے  چندے  میں دے  دیے جائیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(کتاب الوقف،ج:4،ص:445،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"شرب الماء من السقاية جائز للغني والفقير، كذا في الخلاصة. ويكره رفع الجرة من السقاية وحملها إلى منزله؛ لأنه وضع للشرب لا للحمل، كذا في محيط السرخسي. وحمل ماء السقاية إلى أهله إن كان مأذونا للحمل يجوز وإلا فلا، كذا في الوجيز للكردري في المتفرقات."

(کتاب الکراہیۃ،الباب الحادی عشر فی الکراہۃ فی الاکل  وما یتصل بہ ،ج:5،ص:341،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603103097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں