بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا پانی باڑے میں دینا


سوال

 گاؤں حمید تحصیل حضرو میں ایک  مسجد واقع ہے ،اس کے ساتھ جانوروں کا مستقل  باڑہ ہے ،مسجد کا متولی مسجد کا پانی جانوروں کے لیے استعمال کر رہا ہے بغیر مقتدیوں کی اجازت سے کیا متولی کے لیے یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد کا پانی عموماً مسجد کے لیے ہی وقف  ہوتا ہے۔ یعنی صرف  مسجد کے استعمال  کے لیے ہوتا ہے۔ در اصل اس میں  واقف کی شرط کا اعتبار ہے، اگر  پانی کا انتظام کرنے والے واقف کی جانب سے پانی صرف مسجد کے لیے ہو تو اس کا مسجد سے باہر لے جانا   اور  ذاتی استعمال کرنادرست نہیں اور اگر واقف کی جا نب سے اس کی  اجازت ہو کہ ذاتی استعمال بھی کیا جاسکتا ہے تو  مسجد کا پانی  دوسری جگہ لے جانا بھی درست ہے۔

صورت مسئولہ میں  اگر پانی  کا انتظام مسجد   کے اجتماعی چندہ کی رقم سے کیا گیا  ہو  اور  رقم دینے والوں سے اس بات کی اجازت نہ لی گئی ہو کہ پانی پڑوس کو بھی دیا جائے گا  تو اس صورت میں مسجد کا  پانی پڑوس کے باڑہ میں  دینا  درست نہیں، مسجد کی ضروریات اور نمازیوں کی حاجت کو مقدم رکھنا لازمی ہے۔ البتہ اگر پانی مسجد  کی ضرورت سے زائد ہو اور کسی وقتی ضرورت کے لیے چندہ دہندگان کی اجازت کے ساتھ باڑہ میں دےدیں  اور  اس پر جو اخراجات آئیں  (مثلًا موٹر  یا بجلی یا پانی کی رقم  وغیرہ  ) وہ مسجد کے فنڈ میں جمع کرادیں  تو اس کی گنجائش ہوگی۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

”متولي المسجد لیس له أن یحمل سراج المسجد إلی بیته وله أن یحمله من البیت إلی المسجد“، کذا في فتاوی قاضي خان اهـ‘‘.

 ( ۲:۴۶۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں