بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا نام "مسجدِ محمد بن عبداللہ" رکھنا


سوال

 ہمارے محلے میں نئی مسجد تعمیر ہو رہی ہے، جس کا نام محمد بن عبداللہ ہے۔ بعض حضرات نے کہا یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔ کیا اس کو تبدیل کیا جائےیا نہیں ؟

جواب

شناخت کی غرض سے مسجد کو شخصی، قومی یا  علاقائی نام سے  منسوب کرنا یا برکت  وغیرہ کی غرض سے صالحین کے ناموں پر مسجد کا نام رکھنا   جائز  ہے، اسلامی تاریخ میں شخصی، قومی، علاقائی اور بزرگوں کے ناموں پر مساجد کے نام ملتے ہیں، اور سلف نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسجد کا نام صرف  محمدبن عبداللہ  رکھنا صحیح نہیں ہے ، البتہ "مسجد محمد بن عبداللہ " نام رکھنا درست ہے   ۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے :

"(باب هل يقال مسجد بني فلان)

 أي: هذا باب في بيان إضافة مسجد من المساجد إلى قبيلة أو إلى أحد مثل بانيه أو الملازم للصلاة فيه، هل يجوز أن يقال ذلك؟ نعم يجوز، والدليل عليه حديث ابن عمر الآتي ذكره، وإنما ترجم الباب بلفظة: هل، التي للاستفهام لأن في هذا خلاف إبراهيم النخعي، فإنه كان يكره أن يقال: مسجد بني فلان، أو: مصلى فلان، لقوله تعالى: {وإن المساجد} (الجن: 81) ذكره ابن أبي شيبة عنه، وحديث الباب يرد عليه، والجواب عن تمسكه بالآية أن الإضافة فيها حقيقة، وإضافتها إلى غيره إضافة تمييز وتعريف.....حدثنا عبد الله بن يوسف قال أخبرنا مالك عن نافع عن عبد الله بن عمر أن رسول الله سابق بين الخيل التي أضمرت من الحفياء وأمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله بن عمر كان فيمن سابق بها...وفيه: جواز إضافة المسجد إلى بانيه وإلى مصل فيه، كما ذكرنا، وكذلك تجوز إضافة أعمال البر إلى أربابها ونسبتها إليهم وليس في ذلك تزكية لهم."

(كتاب الصلاة ، باب هل يقال مسجد بني فلان،4 / 158، 159،ط:داراحياء التراث العربي )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں