بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا نام مسجد حرام یا مسجد نبوی رکھنا


سوال

   اگر کوئی شخص مسجد کا نام مسجد نبوی یا مسجد حرام رکھے تو کیا اس طرح کا نام رکھنا جائز ہے؟  کیونکہ مسجد نبوی ایک خاص نسبت رکھتی ہے اور وہ مسجد نبوی؛  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے اور مسجد حرام کی نسبت بھی خاص اللہ کی طرف ہے۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ اس طرح کا نام اگر کوئی شخص اپنی بنائی گئی مسجد کا رکھے اس کا کیا حکم ہے؟  کیا یہ بے ادبی اور گستاخی کے زمرے میں آتا ہے؟  اور ایسے نام رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

روئے زمین پر موجود  تین مساجد ایسی ہیں، جن کو بقیہ تمام مساجد پر  خصوصی فضیلت  و امتیاز  حاصل ہیں، ان تین مساجد میں سے پہلی مسجد مسجد حرام، ہے، دوسری  مسجد نبوی ہے، اور تیسری مسجد اقصی ہے۔

السنن الصغير للبيهقيمیں ہے:

" ١٧٧٣ - وروينا في حديث أبي الدرداء وجابر مرفوعا: «فضل الصلاة في المسجد الحرام على غيره مائة ألف صلاة، وفي مسجدي هذا ألف صلاة وفي مسجد بيت المقدس خمسمائة صلاة."

( كتاب المناسك، باب إتيان المدينة وزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم والصلاة في مسجده ومسجد قباء وزيارة قبور الشهداء، ٢ / ٢١١، ط: جامعة الدراسات الإسلامية، كراتشي ـ باكستان)

ترجمہ: " حضرت ابو درداء  اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما  مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ: مسجد الحرام میں ایک نماز  ادا کرنے کی فضیلت  دیگر مساجد کے مقابلہ میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے، اور میری اس مسجد  (مسجد نبوی)  میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے اور  بيت المقدس  (مسجد اقصی ) میں ایک نماز  کی فضیلت پانچ سو  نمازوں کے برابر ہے۔"

شعب الإيمان للبيهقي  میں ہے:

" ٣٨٤٨- حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا أبو محمد عبد الله بن محمد بن إسحاق الفاكهي، حدثنا أبو يحيى بن أبي مسرة ، حدثنا أبي، حدثنا إبراهيم بن أبي حية، عن عثمان بن الأسود، عن مجاهد، عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "صلاة في المسجد الحرام مائة ألف صلاة، وصلاة في مسجدي ألف صلاة، وفي بيت المقدس خمسمائة صلاة."

( كتاب المناسك، إتيان المدينة وزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم والصلاة في مسجده ومسجد قباء، ٦ / ٤١ - ٤٢، ط: مكتبة الرشد )

ترجمہ:"  حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے مسجد نبوی میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد اقصی میں ایک نماز  پانچ سو  نمازوں کے برابر ہے۔"

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

" ٣٨٤٩- أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، حدثنا أبو عبد الله- الحسين بن الحسن بن أيوب الطوسي، حدثنا أبو حاتم الرازي، حدثنا محمد بن بكار بن بلال، حدثني سعيد بن بشير، عن قتادة، عن عبد الله بن الصامت، عن أبي ذر أنه سأل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن الصلاة في بيت المقدس أفضل أو الصلاة في مسجد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: "صلاة في مسجدي هذا أفضل من أربع صلوات فيه ولنعم المصلي في أرض المحشر والمنشر وليأتين على الناس زمان ولقيد سوط- أو قال- قوس الرجل حيث يرى منه بيت المقدس خير له أو أحب من الدنيا جميعا".

( كتاب المناسك، إتيان المدينة وزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم والصلاة في مسجده ومسجد قباء، ٦ / ٤١ - ٤٢، ط: مكتبة الرشد )

ترجمہ:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے دریافت کیا کہ آیا بيت المقدس میں نماز  افضل ہے یا مسجد نبوی میں  افضل ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :  میری  اس مسجد  میں  ایک نماز  وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اور نمازی کے لیے  حشر نشر کے   سرزمین میں کتنی برکت ہے،  اور لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑا باندھا جائے گا یا فرمایا کہ آدمی کی کمان جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہے اس کے لیے بہتر ہوگا یا  اسے یہ ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہوگا۔

سنن ابن ماجهمیں ہے:

" ١٤١٣ - حدثنا هشام بن عمار قال: حدثنا أبو الخطاب الدمشقي قال: حدثنا رزيق أبو عبد الله الألهاني، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الرجل في بيته بصلاة، وصلاته في مسجد القبائل بخمس وعشرين صلاة، وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخمس مائة صلاة، وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة، وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة، وصلاة في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة."

( كتاب إقامة الصلاة، والسنة فيها، باب ما جاء في الصلاة في المسجد الجامع، ١ / ٤٥٣، ط: دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک نماز کے برابر ہے، محلہ کی مسجد میں پچیس نماز کے برابر ہے، اور جامع مسجد میں پانچ سو نماز کے برابر ہے، مسجد الاقصیٰ میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے، مسجد نبوی میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے، اور خانہ کعبہ میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے"۔

پس جس طرح سے مذکورہ تینوں مساجد کی خصوصی فضیلت منصوصی ہے،     بالکل اسی طرح سے تینوں مساجد کے نام بھی منصوصی ہیں ، لہذا اس خصوصیت کی وجہ سے کرہ ارض پر موجود کسی اور مسجد کا نام مسجد حرام یا مسجد نبوی، یا مسجد اقصی رکھنےکی بوجہ التباس اجازت نہیں ، پس اگر کسی نے اپنی تعمیر کردہ  مسجد کا نام مسجد حرام یا مسجد  نبوی یا  مسجد اقصی رکھا ہو، تو اسے  تبدیل کر دینا چاہیئے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

" مسجد کا نام مسجد حرم رکھنا

سوال [ ۲۹۷۸] یہاں پر ایک مسجد مسجد حرم " کے نام سے تعمیر ہورہی ہے، بعض حضرات اس کے نام سے اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ نام مسجد حرم خانہ کعبہ کا ہے، اس لئے یہ نام بدل دیا جائے۔ آپ سے گذراش ہے کہ مسجد کا نام "مسجد حرم رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلياً:

غلام احمد قادیانی نے یہی تلبیس کی تھی کہ اپنا نام نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نام تجویز کیا، اپنی بیوی کا نام ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام تجویز کیا اور اپنی مسجد کا نام سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مسجد کا نام تجویز کیا، اپنے قبرستان کا نام مدینہ پاک کے قبرستان کا نام تجویز کیا، اس طرح اس نے اپنی امت کو حضرت خاتم النبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت سے بے نیاز و بے تعلق بنانے کی کوشش کی۔ 

اپنی مسجد کا نام آپ حضرات بھی مسجد حرم نہ رکھیں کہ بے علم مسلمانوں کو اس سے دھوکہ لگتا ہے اگرچہ آپ حضرات کی نیت تلبیس کی نہ ہو، تاہم دھوکہ اور مغالطہ سے بچنا ضروری ہے۔"

( باب احکام المساجد، ١٤ / ٤٠١، ط: فاروقیہ )

لہذا صورت مسئولہ میں   مذکورہ شخص نے اپنی بنائی مسجد کا نام  اگر محض مسجد  حرام یا مسجد نبوی  کی نسبت کی وجہ سے رکھا ہو تو ایسے شخص کی اقتداء میں نماز ادا ہوجائے گی، تاہم  اس صورت میں بھی نام تبدیل کر نا لازم ہوگا، البتہ اگر مسجد حرام یا مسجد  نبوی کی فضیلت اپنی مسجد کو دینے کی غرض سے یہ نام رکھا ہو، تو ایسا شخص بدعتی  ہے،  جس کی اقتداء  میں نماز ادا نہ کی جائے، تا وقتیکہ  وہ اپنی اصلاح کرکے مسجد کا نام تبدیل نہ کردے۔ 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں