بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا نام ’’مسجد الواحد‘‘ رکھا جائے یا ’’الواحد مسجد‘‘ رکھا جائے؟


سوال

الحمد للہ ہمارے علاقے میں ایک نئی جگہ خریدی گئی ہے، وہاں پر مسجد بنائی جارہی ہے، انتظامیہ مسجد کا نام ’’مسجد الواحد جل جلالہ‘‘ رکھنا چاہتی ہے، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ مسجد کا نام ’’مسجد الواحد جل جلالہ‘‘ رکھنا بہتر ہے یا ’’الواحد جل جلالہ مسجد‘‘ رکھنا بہتر ہے؟ اور ان دونوں ناموں کی ترکیب اور معنی کیا ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ دوناموں میں سے پہلا نام ’’مسجد الواحد جل جلالہ‘‘معنی و ترکیب کے اعتبار سے درست ہے، دوسرا نام درست نہیں، پہلے نام کے صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مرکب اضافی ہے، اور اسے  مبتدا محذوف (ہذا، اس اشارہ) کی خبر قرار دیا جائے گااور یوں یہ کلام مفید قرار پائے گا، باقی رہا دوسرا نام ’’الواحد جل جلالہ مسجد‘‘ تو یہ نام معنی کے اعتبار سے درست نہیں ہے۔

نیز واضح رہے کہ اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہوئے اسماء حسنی میں سے کوئی نام لیا جائے یا لکھا جائے تو اس کے ساتھ تعظیمی کلمات مثلاً جل جلالہ، عم نوالہ، عزوجل، تعالی وغیرہ جیسے کلمات کہنا اور لکھنا مستحب ہے، تاہم اگر اللہ تعالی کا ذکر نہ ہو بلکہ مسجد کا نام محض اسماء حسنی میں سے کسی نام پر ہو تو اس کے ساتھ تعظیمی کلمات کہنےاور لکھنے کا وہ حکم نہیں ہوگا جو اسماء حسنی کا حکم ہے، لہذا مسجد کا نام صرف ’’مسجد الواحد‘‘ رکھا جائے، الواحد کے ساتھ جل جلالہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

عمدة القاری شرح صحيح البخاری میں ہے:

"(باب هل يقال مسجد بني فلان)

 أي: هذا باب في بيان إضافة مسجد من المساجد إلى قبيلة أو إلى أحد مثل بانيه أو الملازم للصلاة فيه، هل يجوز أن يقال ذلك؟ نعم يجوز، والدليل عليه حديث ابن عمر الآتي ذكره ، وإنما ترجم الباب بلفظة: هل، التي للاستفهام لأن في هذا خلاف إبراهيم النخعي، فإنه كان يكره أن يقال: مسجد بني فلان، أو: مصلى فلان، لقوله تعالى: {وإن المساجد} (الجن: 81) ذكره ابن أبي شيبة عنه، وحديث الباب يرد عليه، والجواب عن تمسكه بالآية أن الإضافة فيها حقيقة، وإضافتها إلى غيره إضافة تمييز وتعريف ... عن عبد الله بن عمر أن رسول الله سابق بين الخيل التي أضمرت من الحفياء وأمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله بن عمر كان فيمن سابق بها... وفيه: جواز إضافة المسجد إلى بانيه وإلى مصل فيه، كما ذكرنا، وكذلك تجوز إضافة أعمال البر إلى أربابها ونسبتها إليهم وليس في ذلك تزكية لهم."

(كتاب الصلاة، باب هل يقال مسجد بني فلان، 4/ 158، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں