بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازوں کے اوقات کے علاوہ مسجد کا خالی ہونا


سوال

پنج وقتہ نماز کے علاوہ زیادہ تر مسجدخالی رہتی ہے،  کیا اس طرح مسجد کو خالی رکھناکوئی حرج نہیں ہے؟ آج کل مسجدکو خالی نہ ہونے کے لیے تبلیغی ساتھی  لوگ محنت کر کے ایک ایک باری باری کر کے مسجد میں  نفلی عبادت کے لیے بٹھا دیتے ہیں؛ تاکہ مسجد خالی نہ ہو،  کیا یہ جائز ہے؟

جواب

مساجد کو ذکر واذکار،عبادات اور تلاوت کے ذریعہ آباد رکھنااور ان کی حفاظت کرنا انتہائی ثواب کاکام ہے۔قرآنِ کریم میں ہے :

{اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ  فَعَسٰٓى اُولٰئِكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ} [التوبة: 18]

ترجمہ : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور زکاۃ دی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا،  سو وہ لوگ امیدوار ہیں کہ ہدایت والوں میں سے ہوں۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

" اور اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ مساجد کی عمارت اور آبادی صرف نیک مسلمان ہی کا کام ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو شخص مساجد کی حفاظت، صفائی اور دوسری ضروریات کا انتظام کرتا ہے، اور جو عبادت اور ذکر اللہ کے لیے یا علمِ دین اور قرآن پڑھنے پڑھانے کے لیے مسجد میں آتا جاتا ہے، اس کے یہ اعمال اس کے مؤمنِ کامل ہونے کی شہادت ہے۔

امام ترمذی اور ابن ماجہ نے بروایت ابو سعید خدری نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد کی حاضری کا پابند ہے تو اس کے ایمان کی شہادت دو؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) {اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ}.

اور صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص صج شام مسجد میں حاضر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا ایک درجہ تیار فرما دیتے ہیں۔

 اور حضرت سلمان فارسی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں آیا وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنے والا مہمان ہے، اور میزبان پر حق ہے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (مظہری) بحوالہ طبرانی ابن جریر، بیہقی وغیرہ) "۔

معلوم ہوا کہ مساجد کی آبادی کی فکر کرنا کامل ایمان کی علامت ہے، لہذااگر بعض لوگ فرض نمازوں کے اوقات کے علاوہ بھی مساجد میں وقتاً فوقتاً عبادت کے لیے موجود رہنے کااپنے طور پر اہتمام کرتے ہیں تو یہ کارِ ثواب ہے۔البتہ جب کسی مسجد میں پنج وقتہ نمازیں ادا کی جارہی ہوں اور نمازوں کے اوقات کے علاوہ میں اگر مسجد خالی رہتی ہوں تو اس سے شرعاً کوئی حرج لازم نہیں آتا ، اور نہ ہی دیگر اوقات میں مسجد میں رہنے کی پابندی کا  شرعی حکم ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص نمازوں کے اوقات کے علاوہ میں مسجد میں وقت نہ دے سکے تو اس پر جبر کرنا درست نہ ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں