بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی گیس کسی گھر میں دے سکتے ہیں ؟


سوال

مسجد کی گیس کسی گھر میں دے سکتے ہیں اس بناء پر کے بل وہ بھرے گاجب کہ مسجد کی آمدنی بھی  کم ہو؟

جواب

مسجد کی گیس/ بجلی جو حکومت کی طرف سے لگی ہوی ہے،وه مسجد اور ضروریاتِ مسجد کے لیے خاص ہوتی ہے،انہیں  مسجد کی ضروریات یا اسی طرح مصالح مسجد مثلاً امام اور مؤذن کے گھر کے لیے  استعمال كرنا جائز ہے، ليكن کسی دوسرے کے لیے  اس کا استعمال جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس کا  میٹر حکومت (گیس/ بجلی انتظامیہ) کی طرف سے جس کے لیے لگایا گیا ہو، اس کے علاوہ کسی دوسرے کو اس سےگیس /بجلی فراہم کرنا قانوناً بھی  درست نہیں ہے، بسا اوقات میٹر سے دوسرے کو گیس/ بجلی دینے پرگیس/  بجلی بند و منقطع بھی کرلی جاتی ہے، اس سے مسجدکے نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا. [سورة الإسرآء: 34]

الدر المختار میں ہے:

"قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به فيجب عليه خدمة وظيفته أو تركها لمن يعمل، وإلا أثم لا سيما فيما يلزم بتركها تعطيل الكل من النهر."

(كتاب الوقف، ج:4، ص:433، ط: سعيد)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے :

"ولو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه."

(کتاب الوقف، الباب  الحادی عشر فی المسجد، ج:2، ص: 459، ط: رشیدية)

البحر الرائق میں ہے :

"وفي الإسعاف وليس لمتولي المسجد أن يحمل سراج المسجد إلى بيته."

(كتاب الوقف، فصل في احكام المساجد، ج:5، ص:270، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں