بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کا دروازے کے باہر سے امام کی اقتدا کرنا


سوال

 کرونا وائرس کی بنا پر ایک گروہ کو دیکھا گیا کہ مسجد کا دروازہ بند ہے اور امام نماز جمعہ پڑھا رہا ہے اور وہ لوگ مسجد کے گیٹ کے باہر نماز پڑھ رہیں ہے تو  کیا ان کی یہ نماز ہوجائے گی؟ حکومت نے جمعہ کی نماز پر پابندی عائد کی تھی۔

جواب

واضح رہے کہ اقتدا کے درست ہونے کے لیے  امام اور مقتدی کی جگہ  کا متحد ہونا شرط ہے خواہ حقیقتاً متحد ہوں یا حکماً، مسجد ، صحنِ مسجد اور فناءِ مسجد  یہ تمام جگہ  بابِ اقتدا میں متحد ہیں، لہٰذا مسجد ، صحنِ مسجد اور فناءِ مسجد میں  اگر امام اور مقتدی، یا مقتدیوں کی صفوں کے درمیان دو صفوں کی مقدار  یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو   تب  بھی صحتِ اقتدا سے مانع نہیں ہوگا، اور نماز ادا ہوجائے گی، مگر بلاضرورت  فاصلہ چھوڑنا مکروہِ تحریمی ہے۔

البتہ اگر امام اور مقتدی اور دوسری صفوں کے درمیان شارع عام ہو ( یعنی ایسا کشادہ راستہ ہو  جہاں سے گاڑی وغیرہ گزرسکے) یا ایسی وسیع نہر ہو جس سے چھوٹی کشتی گزرسکے، یا حوض شرعی (دہ در دہ)  ہو تو یہ اشیاء (شارع عام، وسیع نہر، حوضِ شرعی) مسجد کے اندر بھی اتصال سے مانع ہیں، اس لیے ان رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے اقتداصحیح نہیں ہوگی۔

اور  مسجد سے باہر میدان  یا صحراء وغیرہ میں اگر جماعت ہورہی ہو  تو چوں کہ یہ مکان حقیقتاً متحد نہیں ہیں؛ اس لیے حکماً اتصال ( یعنی صفوں کا متصل ہونا ) ضروری ہے، لہٰذا اگر امام اور  مقتدی کے درمیان  دو صفوں کے بقدر ( یعنی تقریباً آٹھ فٹ) یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تو یہ بھی صحت اقتداسے مانع ہوگا، اور ان لوگوں کی نماز ادا نہیں ہوگی۔

لہذا اگر مسجد کے گیٹ سے باہر نماز پڑھنے والوں کا مسجد کے اندر نماز پڑھنے والوں سے دو صفوں کے بقدر فاصلہ ہو تو  گیٹ کے باہر نماز پڑھنے والوں کی نماز نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقاً ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقاً.

 (قوله: تجري فيه عجلة) أي تمر، وبه عبر في بعض النسخ. والعجلة بفتحتين. وفي الدرر: هو الذي تجري فيه العجلة والأوقار اهـ وهو جمع وقر بالقاف. قال في المغرب: وأكثر استعماله في حمل البغل أو الحمار كالوسق في حمل البعير (قوله: أو نهر تجري فيه السفن) أي يمكن ذلك، ومثله يقال في قوله تمر فيه عجلة ط. وأما البركة أو الحوض، فإن كان بحال لو وقعت النجاسة في جانب تنجس الجانب الآخر، لا يمنع وإلا منع، كذا ذكره الصفار إسماعيل عن المحيط. وحاصله أن الحوض الكبير المذكور في كتاب الطهارة يمنع أي ما لم تتصل الصفوف حوله كما يأتي (قوله: ولو زورقاً) بتقديم الزاي: السفينة الصغيرة كما في القاموس. وفي الملتقط: إذا كان كأضيق الطريق يمنع، وإن بحيث لا يكون طريق مثله لا يمنع سواء كان فيه ماء أو لا...... (قوله: ولو في المسجد) صرح به في الدرر والخانية وغيرهما (قوله: أو خلاء) بالمد: المكان الذي لا شيء به قاموس". (1/584، 585، باب الامامۃ، کتاب الصلوٰۃ، ط: سعید)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں