بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے راستے میں نماز پڑھنے کا حکم، مسجد میں اپنی کرسی کی جگہ متعین کرنے کا حکم


سوال

1۔ ہماری مسجد  میں ایک دو   صاحبان ہیں جو عام نمازوں میں مسجد میں جگہ ہونے کے باوجود راستے میں نماز پڑھتے ہیں اپنا یہ عمل کرنے کے لیے وہ مسجد انتظامیہ کی طرف سے جو صف کے ختم ہونے کی جو رکاوٹ ہوتی ہے یعنی عام طور پر لکڑی یا لوہے کا سٹیل لگایا جاتا ہے،  اس کو وہ ہٹا کر پائیدان پر یا پھر کوئی کپڑا ڈال کر نماز ادا کرتے ہیں ، حالاں کہ پوری مسجد خالی ہوتی ہے، مگر  وہ راستے میں نماز ادا  کرتے ہیں ان کے اس عمل کے بارے میں آپ کی راہ نمائی درکار ہے ۔

2۔ ہماری مسجد میں کرسی پر نماز ادا کرنے کے لیے دائیں اور بائیں جانب جگہ مخصوص ہے مگر کچھ لوگ اس مخصوص جگہ سے کرسیاں اٹھا کر بیچ کی صفوں میں آ کر یا پہلی صف میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں،   ان کے اس عمل کی بارے میں  آپ کی راہ نمائی درکار ہے۔

3۔ ہماری مسجد میں کرسیوں پر نماز ادا کرنے والے بعض اوقات نماز ختم ہونے کے بعد پھر اسی کرسی پر رومال یا پھر ٹوپی وغیرہ رکھ کر چلے جاتے ہیں یعنی وہ اپنی جگہ روک لیتے ہیں ان کے اس عمل کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ صفوں کی درستگی اور انہیں پُر کرنا اس میں خالی جگہ نہ چھوڑنا  شریعت کے احکامات میں سے ایک اہم حکم اور نماز کا حصہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کے درست کرنے کو نماز کی تکمیل قرار دیاہے، اور اگلی صف میں جگہ موجود ہوتے ہوئے پچھلی صف میں کھڑے ہونے سے منع فرمایاہے، لہذا  شرعی مسجد کی حدود میں جماعت کے دوران  بلا کسی عذر دائیں بائیں یا صف کے درمیان راستہ چھوڑنا درست نہیں  ہے، تاہم اگر نمازیوں کی مصلحت کے لئے مسجد کے دائیں بائیں کچھ حصہ کو آمدورفت کے لئے چھوڑ دیا جائے؛ تاکہ اگلی صفوں کے لوگوں میں سے جن لوگوں کو پہلے مسجد سے نکلنا ہو،ان کو نمازیوں کے سامنے سے گزرنا نہ پڑے، اور کنارے سے نکل جائیں تو اس  کی گنجائش ہے، یہ مسجد کی مصلحت، نمازیوں کی آسانی اور خود نماز کے احترام کے لیے ہے؛ اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اور اس صورت میں  باقی مسجد میں جگہ ہوتے ہوئے ان راستوں میں کھڑا ہونا  اگلی صفوں میں  کھڑے نمازیوں  کے لیے  ایذا کا سبب بننا درست نہیں ہے۔

1)لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً  مسجد میں خالی جگہ ہو اور یہ دو حضرات وہاں راستوں میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ عمل ان کادرست نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

2)مذکورہ صورت میں پہلی صف سمیت کسی بھی صف میں کسی بھی جگہ کرسی رکھ کر نماز پڑھنا جائز ہے،البتہ اگر صف کے درمیان جگہ خالی رہنے کا اندیشہ نہ ہو تو پھر بہتر صورت یہ ہے کہ کرسیاں صف کے کنارے رکھی جائیں،تاکہ کرسی رکھنے کی وجہ سے صف کے درمیان جو تھوڑا بہت خلا پیدا ہوتا ہے وہ بھی نہ ہو اور دیگر نمازیوں کو تکلیف بھی نہ ہو، لہذا اگر  مذکورہ مسجد میں  اگلی صفیں  اور درمیان  والی صف   خالی نہ رہتی ہو تو  پھر کرسیوں پر نماز پڑھنے والوں کو چاہیے کہ مسجد کی انتظامیہ کے مطابق کرسیوں کی مخصوص جگہ میں نماز پڑھا کریں، درمیان میں آنے کی وجہ سے نمازیوں کی تکلیف اور  صف میں تھوڑا  سا خلا  باقی رہنے کا اندیشہ ہے۔

3)صورتِ مسئولہ میں اس طرح کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مسجد  میں  کسی کو جگہ مخصوص کرنے کا حق نہیں ہے، بلکہ  جو شخص بھی پہلے  آکر کسی جگہ بیٹھ جائے ، وہ جگہ اسی کا  حق ہے، جب وہ  چلا جائے تو اگلی نماز میں جو پہلے آکر وہاں بیٹھ جائے تو پھر اسی کا حق ہوگا،لہذا نماز ختم  ہونے کے بعد جاتے ہوئے اگلی نماز کے لئے  کرسی پر رومال یا ٹوپی  رکھنا  درست نہیں ہے،بلکہ جو پہلے آئے ایسی کرسی کو ہٹاکر اس جگہ نماز اداکرے۔

2 ، 1)البحر الرائق شرح كنز الدقائق   میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه وهلم جرا وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه، وإن ترجح اليمين فإنه يقوم عن يساره  وإن وجد في الصف فرجة سدها وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه صلى الله عليه وسلم قال "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم ولا تذروا فرجات للشيطان ومن وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله،  وروى البزار بإسناد حسن عنه صلى الله عليه وسلم :من سد فرجة في الصف غفر له."

(کتاب الصلاۃ، باب الجماعة، ج:1، ص:375، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في المعراج: الأفضل ‌أن ‌يقف في الصف الآخر إذا خاف إيذاء أحد. قال عليه الصلاة والسلام "من ترك الصف الأول مخافة أن يؤذي مسلما أضعف له أجر الصف الأول"وبه أخذ أبو حنيفة ومحمد، وفي كراهة ترك الصف الأول مع إمكانه خلاف اهـ أي لو تركه مع عدم خوف الإيذاء، وهذا لو قبل الشروع؛ فلو شرعوا وفي الصف الأول فرجة له خرق الصفوف كما يأتي قريبا."

 (‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:569، ط:سعيد)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

"وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم لا تذروا فرجات للشيطان من وصل صفا وصله الله  ومن قطع صفا قطعه الله...قوله: "وصله الله" خير أو دعاء له بوصله بالخير قوله: "ومن قطع صفا قطعه الله" المراد من قطع الصف كما في المناوي أن يكون فيه فيخرج لغير حاجة أو يأتي إلى صف ويترك بينه وبين من في الصف فرجة قال ولا يبعد أن يراد بقطع الصف ما يشمل ما لو صلى في الثاني مثلا مع وجود فرجة في الصف الأول."

 (‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب الإمامة، ص:306، ط:دار الكتب العلمية)

3)فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وتخصيص مكان لنفسه) لأنه يخل بالخشوع، كذا في القنية: أي لأنه إذا اعتاده ثم صلى في غيره يبقى باله مشغولا بالأول، بخلاف ما إذا لم يألف مكانا معينا (قوله وليس له إلخ) قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواظب عليه وقد شغله غيره. قال الأوزاعي: له أن يزعجه، وليس له ذلك عندنا اهـ أي لأن المسجد ليس ملكا لأحد بحر عن النهاية

قلت: وينبغي تقييده بما إذا لم يقم عنه على نية العود بلا مهلة، كما لو قام للوضوء مثلا ولا سيما إذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده تأمل. مطلب فيمن سبقت يده إلى مباح وفي شرح السير الكبير للسرخسي: وكذا كل ما يكون المسلمون فيه سواء كالنزول في الرباطات، والجلوس في المساجد للصلاة، والنزول بمنى أو عرفات للحج، حتى لو ضرب فسطاطه في مكان كان ينزل فيه غيره فهو أحق، وليس للآخر أن يحوله، فإن أخذ موضعا فوق ما يحتاجه فللغير أخذ الزائد منه، فلو طلب ذلك منه رجلان فأراد إعطاء أحدهما دون الآخر فله ذلك؛ ولو نزل فيه أحدهما فأراد الذي أخذه أولا وهو غني عنه أن ينزل فيه آخر فلا لأنه اعترض على يده يد أخرى محقة لاحتياجها، إلا إذا قال إنما كنت أخذته لهذا الآخر بأمره لا لنفسي."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع ، ج:1، ص:662، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں