بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے پرانے پنکھے مسجد میں لگانا


سوال

کیا مدرسے  کے  پرانے  پنکھے مسجد میں لگاۓ   جاسکتے ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ پنکھے خاص مدرسہ  کے  لیے  وقف  شدہ ہوں تو  اس صورت میں  مذکورہ مدرسہ کے علاوہ کسی اور مقام پر  خواہ  وہ مسجد  یا کوئی اور  مدرسہ ہی کیوں نہ ہو، لگانے کی شرعًا اجازت نہ ہوگی، البتہ اگر  مدرسے  میں ان پنکھوں کی ضرورت بالکل نہ رہی ہو تو اس صورت  میں  مذکورہ پنکھے مسجد کے  لیے فروخت کرسکتے ہیں، فروخت کرنے سے قبل   مدرسہ کے  لیے پنکھے وقف کرنے والوں سےاجازت لینا بہتر ہوگا، بہر صورت حاصل شدہ آمدنی  مدرسہ کے مصارف میں خرچ کرنا لازم ہوگا۔

البتہ اگر  مذکورہ پنکھے مدرسہ کے  لیے وقف  شدہ نہ ہوں،  مسجد  و  مدرسہ  کے  لیے وقف  کیے گئے ہوں،   اور دینے والوں نے مدرسہ انتظامیہ کو   مسجد یا مدرسے میں سے جہاں چاہیں  صرف کرنے کا اختیار  دیا ہوا ہو، یا مسجد مدرسے کے ہی زیرِ انتظام ہو اور عطیات کی مد میں مسجد و مدرسے کا چندہ مشترک ہو،  اور چندہ دینے والوں کی طرف  سے  انتظامیہ کو اجازت ہو کہ وہ مسجد و مدرسے میں سے جہاں ضرورت ہو صرف کریں تو ان تمام صورتوں میں مذکورہ پنکھے بلا عوض مسجد میں لگائے جا سکتے ہیں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق و منحة الخالق و تكملة الطوري  میں ہے:

"و قد علم منه انه لايجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر."

(كتاب الوقف،  ٥ / ٢٣٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

و فیہ ایضا:

"و كذا لو اشترى حشيشًا أو قنديلًا فوقع الاستغناء عنه كان ذلك له إن كان حيًّا و لورثته إن كان ميتًا و عند أبي يوسف يباع ذلك و يصرف ثمنه إلى حوائج المسجد فإن استغنى عنه هذا المسجد يحول إلى مسجد آخر و الفتوى على قول محمد."

( كتاب الوقف، ٥ / ٢٧٣، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

( كتاب الوقف، ٤ / ٤٤٥، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں