بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے فوقانی (اوپری) حصے میں شادی ہال بنانے کا حکم


سوال

مسجد کے فوقانی حصے میں شادی خانہ بنوانا کیسا ہے، جبکہ اوپر جانے کا راستہ مسجد سے باہر ہو،اور اس شادی خانے میں تقریبات کرنے کی صرف مسلمانوں کو اجازت ہو،مگر ہندوستان میں غیر قوم بھی چونکہ شرکت کرتے ہیں، تو کیا مسجد کے اوپری حصے میں شادی خانہ بنانے کی اجازت ہے؟

جواب

واضح رہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک کرۂ ارض پر سب سے مقدس و محبوب ترین جگہ مسجد ہے، کیونکہ یہ اللہ کا گھر ہے اور دربار الہی ہے، اور اس کا یہ تقدس زمین سے لے کر آسمان تک ہے، اسی تقدس اور عظمت کی بناء پر عین مسجد کی حدود میں اس کے تقدس کے منافی کوئی بھی عمل کرنا شرعاً جائز نہیں۔

صورت مسئولہ میں مسجد کے فوقانی حصے میں شادی خانہ بنانا شرعاً جائز نہیں، چاہے اوپر جانے کا راستہ باہر سے ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مسجد کا فوقانی حصہ بھی نفس مسجد ہی  ہے، اس میں نماز اور عبادات کے علاوہ دیگر کوئی بھی کام جس سے مسجد کی عظمت پامال ہوتی ہو؛ بالکل اجازت نہیں، لہذا مسجد کے فوقانی حصے میں شادی ہال بنانا جائز نہیں ہے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا مبارک ارشاد ہے:

"ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ." [الحج: 32]

ترجمہ: " یہ بات بھی ہوچکی اور (قربانی کے جانور کے متعلق اور سن لو کہ) جو شخص دین خداوندی کے ان (مذکورہ) یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو ان کا یہ لحاظ رکھنا خدا تعالیٰ سے دل کے ساتھ ڈرنے سے ہوتا ہے۔ " (بیان القرآن)

فتح القدیر میں ہے:

"(وتكره المجامعة ‌فوق ‌المسجد والبول والتخلي) لأن سطح المسجد له حكم المسجد حتى يصح الاقتداء منه بمن تحته."

(‌‌كتاب الصلاة: 1/ 420، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(و) كره تحريما (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى ‌عنان ‌السماء."

(‌‌كتاب الصلاة، لا بأس باتخاذ المسبحة لغير رياء: 1/ 656، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية."

(‌‌كتاب الوقف: 4/ 358، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں