بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے زمین وقف کرنے اور اس کی تولیت سے متعلق


سوال

 احقر ایک صاحبِ نسبت بزرگ رحمہ اللہ سے مجاز بیعت ہے، اور اسی حوالے سے مسجد اور خانقاہ کی تعمیر کے لیے پلاٹ خریدنے کے لیے مختلف جگہیں دیکھ رہا تھا، اسی دوران معلوم ہوا کہ ایک دوست قاری صاحب کو بارہ مرلہ کا پلاٹ کسی ساتھی نے مسجد کی تعمیر کے لیے دیا ہے اور ان قاری صاحب کے پاس پہلے بھی مسجد موجود ہے؛ لہذا میں نے ان سے درخواست کی کہ اگر آپ یہ پلاٹ مسجد بنانے کے لیے مجھے دے دیں تو میں ان شاءاللہ اس پر مسجد کی تعمیر کرلیتا ہوں اور اس کے ساتھ پڑی جگہ سے خانقاہ اور گھر کے لیے  مزید کچھ جگہ بھی خرید کر سیٹ اپ بنالیتاہوں، میرے ایک اور دوست مفتی صاحب نے ہی یہ بات چلائی اس پر قاری صاحب نے کہا کہ میرے پاس پہلے جو مسجد ہے اس کے ساتھ مدرسہ بھی چھوٹا سا ہے، میرا ارادہ یہ ہے کہ مدرسہ میں بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے کچھ طلباءِ کرام کو نئی مسجد کی جگہ پر شفٹ کردوں گا، اس پر میں نے کہا کہ جناب قاری صاحب اگر پرانی مسجد کے ساتھ مدرسہ کے لیے کوئی جگہ مل سکتی ہے تو میں اس مد میں ان شاءاللہ سات لاکھ تک تعاون کردوں گا؛ تاکہ مدرسہ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے اور نئی مسجد بھی ان شاءاللہ میں تعمیر کرلوں گا۔ ان قاری صاحب نے نئی مسجدکا پلاٹ دینے والوں سے بات کرلی، انہوں نے کہا کہ اللہ کا گھر بنانا ہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں، اگر یہ ساتھی بنالیں۔

اب کچھ اور علماءِ کرام جو میرے اچھے دوست ہیں انہوں نے یہ اشکال پیش کیا ہے کہ جن قاری صاحب کو مدرسہ کے پلاٹ کے لیے آپ نے پیسے دینے ہیں گویا کہ وہ مسجد کے پلاٹ کی وجہ سے دینے ہیں؛ اس لیے قاری صاحب پر نئی مسجد کا پلاٹ بیچنے کا الزام بنتا ہے؛ لہٰذا اس مسئلہ کی مفتیانِ کرام سے تصدیق اور تحقیق کروالینی چاہیے، مبادا کہیں ہمارا طریقہ خلافِ شرع نہ ہو؟ اس لیے راہ نمائی فرمادیجیے؛ تاکہ سنت اور شریعت پر عمل کیا جاسکے اور مسجد کی بنیاد تقوی پر بن سکے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ جگہ کے مالکان نے اب تک زمین وقف کرکے مکمل انتظام و انصرام کے ساتھ سائل کے دوست قاری صاحب کے حوالے نہیں کی ہے، اور اب اصل واقفین یہ جگہ سائل کو مسجد بنانے کے لیے دینے پر راضی ہیں، تو اس صورت میں سائل کے لیے مسجد  کی تولیت لینا شرعًا درست  ہوگا، اور دوست قاری صاحب کو 6 لاکھ دینے کی بات سائل کی صواب دید پر موقوف ہوگی، یعنی ادائیگی لازم نہ ہوگی، پس اگر دے گا تو اس کی جانب سے امداد شمار ہوگا، اور 6 لاکھ سے کم دینے یا نہ دینے کی صورت میں مذکورہ عالمِ دین کو سائل سے مطالبہ کا حق نہ ہوگا،  اور  شرعًا یہ معاملہ سائل اور اس کے دوست کے درمیان تبادلہ کا معاملہ نہ ہوگا، البتہ اگر اصل واقفین کے راضی نہ ہونے کے باوجود  ایسا کرتے ہیں یا واقفین نے زمین خاص ادارے یا مخصوص افراد کے لیے مشروط وقف کی ہے تو شرعًا اس کی اجازت نہ ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں