بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے فنڈ کو کاروبار میں لگانا


سوال

مسجد کے فنڈ میں جو پیسے ہیں ان کو مضاربت میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

مسجد کا فنڈ  (پیسے) کمیٹی یا متولی و خزانچی کے پاس امانت ہوتا ہے،  اس لیے مسجد کا متولی مسجد  کی رقم صرف مسجد کے اخراجات اور مصالح میں لگانے کا پابند ہے، مسجد کا موقوفہ مال کسی کو کاروبار میں لگانے کے لیے بطورِ قرض دینے یا کمیٹی کے افراد کے لیے خود لینے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ مسجد کے پیسے بڑھانے کی نیت سے بھی کسی کو کاروبار (تجارت) میں لگانے کے لیے دینا جائز نہیں ہیں، کیوں کہ مسجد کا فنڈ (پیسے) امانت ہے اور امانت کو تجارت میں لگانا خیانت ہے، حلال تجارت میں نفع و نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے، ایسی تجارت جس میں نفع کی ضمانت دی جائے وہ شرعًا ’’جائز تجارت‘‘ نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا حلال تجارت میں نقصان کا امکان ہونے کی وجہ  سے بھی وقف (مسجد) کی رقم کو تجارت (کاروبار) میں لگانا جائز نہیں ہوگا، نیز  چوں کہ وقف کو واقف کی منشاء کے مطابق استعمال کرنا لازم ہے اور مسجد کے پیسوں کے بارے میں واقف کی منشاء کاروبار میں لگاکر بڑھانا نہیں ہے، بلکہ مسجد میں لگا کر ثواب حاصل کرنا ہے، ورنہ واقف خود ہی کاروبار میں لگاکر بڑھانے کے بعد مسجد کو دے دیتا، لہٰذا واقف کی منشاء کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے بھی مسجد کے پیسے کسی کاروبار (تجارت) میں لگانا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ  یہ  ہے  کہ  مسجد  کے  پیسے  کاروبار  (تجارت)  میں  لگانا  جائز  نہیں  ہے ؛ لہٰذا کسی کو کاروبار میں لگانے کے لیے نہ دیا جائے، خواہ اس کا ارادہ نفع سمیت رقم مسجد میں لوٹادینے کا ہو ۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

" مسجد کا پیسہ متولی کے پاس امانت ہوتا ہے، اس میں اور کسی قسم کا تصرف کرنا روزگار وغیرہ میں لگانا جائز نہیں"۔

وفیہ ایضا:

"مسجد کی رقم متولی کے پاس امانت ہے، کسی کو بیوپار کے لیے  دینے کا اس کو حق نہیں، ہر گز کسی کو نہ دی جائے"۔

(باب احکام المساجد، ۱۵/ ۸۰، ط: فاروقیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني.

الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر ولاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ٤ / ٣٣٨، ط: دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي القنية ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البيع له وإن كان فيه منفعة ظاهرة للمسجد. اهـ.... أن القيم ليس له إقراض مال المسجد قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز. اهـ. "

( كتاب الوقف، تصرفات الناظر في الوقف، ٥ / ٢٥٩، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں