مسجد میں عید الفطر کے حوالے سے کی گئی چندے کی رقم میں سے امام صاحب، موذن صاحب اور خادم صاحب کو عیدی دی جاسکتی ہے؟
صورت مسئولہ میں اگر کمیٹی کے طرف سے پہلے سے ضابطہ کے مطابق یہ طے ہو کہ عید کے موقع پر امام، موذن اور خادمین کو تنخواہ کے علاوہ بونس دیا جائے گا تو اس صورت میں مذکورہ چندہ سے یہ بونس عیدی کے نام سے دینا جائز ہے، اور اگر پہلے سے بونس دینا طے نہ ہو، لیکن چندہ کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اس سے امام، مؤذن اور خادمین کو عیدی دی جائے گی، یا چندہ دہندگان نے از خود اس کی اجازت دی تھی، یا مستقل طور پر اس کے لیے ہی چندہ کیا گیا تو ان صورت میں بھی مذکورہ رقم سے ان لوگوں کو عیدی دینا جائز ہوگا۔
لیکن اگر بونس پہلے سے طے نہ ہو ، اور نہ ہی چندہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا تھا، نہ ہی اس غرض سے چندہ کیا گیا، بلکہ عید الفطر کے حوالہ سے مسجد کا عمومی چندہ کیا گیا تھا تو اب اس چندہ سے امام ، مؤذن اور خادم کو تنخواہ کے علاوہ عیدی دینا جائز نہیں ہوگا، بلکہ اس صورت میں کوئی شخص اپنی طرف سے ان حضرات کو عیدی دے دے۔
"فتاوی شامی" میں ہے:
"(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، وتمامه في البحر."
(4/367دارالفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200152
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن