بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے بیت الخلا کرائے پر دینا اور اس کی آمدن مسجد کے مصالح میں خرچ کرنا


سوال

ہمارے گرد و پیش مساجد کے زیر ملکیت وضو خانوں میں بنے باتھ رومز کو کرایہ پر دیاجاتا ہے، غیر مسلم لوگ ان کے استعمال پر 10 یا 20 روپے لےکر ان سے مخصوص و پہلے سے متعین کرایہ مسجد انتظامیہ کو دیتے ہیں۔ کیا مسجد انتظامیہ یہ کرایہ مسجد ہی کے لیے قبول کرنے کی مجاز ہے؟ منتظمین کا کہنا ہے کہ باتھ رومز  بنائے ہم نے، بور لگواکر   پانی کا انتظام ہم نے کیا، ٹینکی بھی ہم نے کنکریٹ  کی یعنی تمام تر انتظامات ہم نے برابر  کیے، تو ہم کرایہ کیوں نہیں لے سکتے؟  دوسری بات اگر یہ کرایہ لینا جائز ہو، تو کیا نفسِ  مسجد  یا کسی دوسرے کام مثلا امام و خطیب مؤذن کی تنخواہ بھی اس سے دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ 

جواب

مسجد کے لیے وقف جگہ میں جو باتھ رومز بنے ہوں انہیں مسجد کے مصالح کے لیے کرایہ پر دینا جائز ہے اور  اس کی آمدن (یعنی کرایہ) مسجد کے مصالح میں مثلاً مسجد کے اخراجات یا امام و خطیب وغیرہ کی تنخواہ میں دینا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ويدخل في وقف المصالح قيم ... إمام خطيب والمؤذن يعبر."

(كتاب الوقف، ج4، ص371، سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولاتجوز إجارة الوقف إلا بأجر المثل، كذا في محيط السرخسي".

(كتاب الوقف، ج2، ص419، رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں