ہمارے علاقے میں لوگوں کی زمینیں زیادہ ہیں، اس وجہ سے جب کوئی بندہ نیا گھر بناتا ہے تو اس کے ساتھ یا الگ چار دیوار میں حجرہ اور مسجد بناتے ہیں اور اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں:
1- جب مسجد پہلے بن جائے تو حجرہ کی نیت سے مسجد سے متصل دیوار میں جوڑ لگانے کے لیے اینٹییں نکالتے ہیں۔
2- جب پہلے حجرہ بن جاے تو مسجد کی نیت سے حجرے سے متصل دیوار میں جوڑ لگانے کے لیے اینٹیں نکالتے ہیں۔
3- یا مسجد اور حجرہ دونوں کی تعمیر ایک ساتھ شروع کر کے درمیانی دیوار دونوں کے لیے مشترک کرتے ہیں۔
4-یا ایک طرف حجرہ دوسری طرف گاڑی وغیرہ کے لیے برآمدہ، اور حجرہ اور برآمدے کے درمیان میں مشترک دیواروں کے ساتھ مسجد بناتے ہیں۔
5- یا چار دیواری کے کسی ایک کونے میں مسجد اور دوسری طرف حجرہ ہوتا ہے۔
ان تمام صورتوں میں چار دیواری ایک ہی ہوتی ہے، جس میں کسی پر بڑا دروازہ اور کسی پر چھوٹا دروازہ ہوتا ہے، یعنی مسجد کے لیے کوئی جدا راستہ نہیں ہوتا، اطراف میں بھی اسی زمین کے مالک کی یا پھر دیگر لوگوں کی زمینیں ہوتی ہیں، نیز عرف میں اس مسجد کو صاحب زمین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس وجہ سے اگر پڑوسی کے ساتھ مالک مسجد کی دل شکنی یا چپقلش ہوجائے تو وہ پڑوسی اس وجہ سے اس کے حجرہ کے ساتھ ساتھ مسجد میں بھی نہیں آتا کہ یہ فلاں کی مسجد ہے، اس طرح جب دو بھائی آپس میں جدا ہوتے ہیں اور اپنا گھر دور لے جاتے ہیں تو حجرہ کے ساتھ ساتھ مسجد کی زمین اور کمرے کا حساب لگاتے ہیں، جب ہم کبھی کبھار کسی مسجد کی بنیاد یا قبلہ کے لیے جاتے تو وہاں پر پرانی مسجد ہوتی ہے، جب ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیوں؟ تو کہتے ہیں کہ ہمار گھر اب تنگ ہوچکا ہے، لہذا اب ہم اس کو گھر کے اندر شامل کر کے عورتوں کےلیے نماز گاہ بنائیں گے یا ہم اس میں تالاب یا باغ بنائیں گے تا کہ اس کی زمین محفوظ ہوجائےاور عرف میں یہ برا بھی نہیں سمجھا جاتا، حاصل یہ کہ مندرجہ بالا صورتوں میں شرط "افراز عن الملک بالطریق" پائی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر چہ اس میں اذان اور جماعت کی شرط پائی گئی ہو، کیا یہ شرعی مساجد ہیں یا عرفی؟
واضح رہے کہ مسجد کے وقف ہونے کے لیے یہ شرط ہے واقف اس کو اپنی ملکیت سے جدا کردے اور اس میں نماز پڑھنے کی عام اجازت دیدے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ مساجد کو جب مسجد بنانے کی نیت سے دیگر مملوکہ زمین سے الگ کر دیا گیا اور اس میں نماز پڑھنے کی عام اجازت دیدی گئی تو ایسی صورت میں یہ شرعی مساجد شمار ہوں گی اور اس پر شرعی مساجد کے احکام لاگو ہوں گے یعنی قیامت تک کے لیے یہ مسجدیں ہوگئیں، اب ان زمینوں کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔ اور مذکورہ صورتوں میں "افرازعن الملک بالطریق" مفتی بہ قول کے مطابق شرط نہیں۔
فتح القدير میں ہے:
"(وكذلك إن اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فيه) إذنا عاما (له أن يبيعه ويورث عنه؛ لأن المسجد ليس لأحد حق المنع منه، وإذا كان ملكه محيطا بجوانبه) الأربع (كان له حق المنع فلم يصر مسجدا، ولأنه أبقى الطريق لنفسه فلم يخلص لله تعالى) وعن كل من أبي حنيفة ومحمد أنه يصير مسجدا؛ لأنه لما رضي أن يكون مسجدا ولم يصر مسجدا إلا بالطريق دخل فيه الطريق وصار داخلا بلا ذكر كما يدخل في الإجارة بلا ذكر."
(كتاب الوقف، ج:6، ص:235، ط: دار الفكر)
البحر الرائق میں ہے:
"جعل وسط داره مسجدا وأذن للناس في الدخول والصلاة فيه إن شرط معه الطريق صار مسجدا في قولهم وإلا فلا عند أبي حنيفةوقالا يصير مسجدا ويصير الطريق من حقه من غير شرط كما لو أجر أرضه ولم يشترط الطريق."
(كتاب الوقف، ج:5، ص:270، ط: دار الكتاب الاسلامي)
(ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني...............(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي)."
"ولقائل أن يقول: إذا قال جعلته مسجدا فالعرف قاض، وماض بزواله عن ملكه أيضا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لا يتردد فيه نهر........وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ."
(كتاب الوقف، ج: 4، ص: 357، ط: ايچ ايم سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601100664
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن