بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد گھر سے کتنی دور ہو، تو گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے؟


سوال

اذان کا عملی جواب دینا یعنی اذان سن کر نماز میں مشغول ہونا واجب ہے   اور زبانی جواب دینا یعنی اذان کے الفاظ دہرانا مستحب ہے، لہٰذا اب سوال یہ ہے کہ  اگر گھر سے مسجد پانچ کلومیٹر دور ہو، تو فوراً اذان کے بعد نماز کی تیاری کرنا اور نماز پڑھنا واجب ہے یا نماز کا وقت ختم ہونے تک کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں اور واجب ادا ہو جائے گا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مسجد گھر سے قریب ہو تو جماعت کی نماز واجب ہے؟ اگر ہاں! تو مسجد گھر سے کتنی  دور ہو گی، تو جماعت کی نماز واجب نہیں رہے گی؟ کیوں کہ آسٹریلیا میں اذان لاوڈ سپیکر پر نہیں ہوتی تو آواز سے حساب نہیں لگا سکتے کہ گھر میں اذان کی آواز آ رہی ہے یا نہیں۔

جواب

اذان ہوجانے کے بعد اذان کا زبانی جوب دینا مستحب اور عملی جواب یعنی نماز اور جماعت کی تیاری میں مشغول ہوجانا واجب ہے، مردوں پر مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا سنتِ مؤکدہ (قریب الوجوب)  ہے، بلا عذر مسجد کی جماعت کو چھوڑنے والا شخص گناہ گار  ہوگا، البتہ اگر کوئی شدید عذر ہو جس کی وجہ سے جماعت کی نماز میں شریک ہونا دشوار ہو اور اس کی وجہ سے حرج لاحق ہوتا ہو، تو ایسی صورت میں گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے اور بہتر اس میں بھی یہی ہے کہ اگر دو یا اس سے زائد افراد ہوں، تو جماعت سے نماز ادا کریں۔

باقی مسجد گھر سے کتنی دور ہو، تو وہ ترکِ  جماعت کے لیے عذر بن سکتی ہے؟ فقہاء کرام نے اس کی کوئی تحدید نہیں کی ہے  کہ مسجد اتنے کلو میٹر دور ہو، تو ترک جماعت جائز ہے، ورنہ نہیں، بلکہ حرج لاحق ہونے کو  ترکِ جماعت کےاعذار میں شمار کیا ہے،   لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد گھر سے 5 کلو میٹر دور ہو اور سواری کی سہولت کے ساتھ مسجد آنے جانے کا انتظام موجود ہو، تو ایسی صورت میں بھی جماعت کو چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھنے کی عادت بنانا درست نہیں ہے، البتہ اگر  ہر نماز کے لیے آنا جانا دشوار ہو اور حرج لاحق ہوتا ہو، تو پھر  گھر میں نمازادا کرناجائز ہے، لیکن ایسی صورت میں بھی  بہتر یہی ہے کہ گھر میں بھی جماعت سے ہی نماز ادا کی جائے۔

اور مسجد گھر سے دور ہونے کی وجہ سے اگر گھر میں اذان کی اواز نہ آتی ہو، تو  نماز کا وقت ہوتے ہی نماز کی تیاری میں مشغول ہوجانا افضل ہے، کیوں کہ بہت سی احادیث مبارکہ میں اول وقت میں نماز پڑھنے کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔

لمعات التنقیح میں ہے:

"قوله: (الوقت الأول من الصلاة) أي: الصلاة في أول الوقت، والظاهر أن المراد ما سوى ما استحب فيه التأخير؛ كالتبريد للظهر والأسفار للفجر، وما لم يكن في التأخير عنه في الجملة مصلحة دينية مكملة للصلاة ومتممة للثواب كتكثير الجماعة مثلا."

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:365، ط:دار النوادر)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط ... (و قيل واجبة وعليه العامة) أي عامة مشايخنا وبه جزم في التحفة وغيرها. قال في البحر: وهو الراجح عند أهل المذهب (فتسن أو تجب) ثمرته تظهر في الإثم بتركها مرة (على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج)

(قوله من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل «أنه عليه الصلاة والسلام قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته: ما أجد لك رخصة» قال في الفتح: أي تحصل لك فضيلة الجماعة من غير حضورها لا الإيجاب على الأعمى، «لأنه - عليه الصلاة والسلام - رخص لعتبان بن مالك في تركها» اهـ لكن في نور الإيضاح: وإذا انقطع عن الجماعة لعذر من أعذارها وكانت نيته حضورها لولا العذر يحصل له ثوابها اهـ والظاهر أن المراد به العذر المانع كالمرض والشيخوخة والفلج، بخلاف نحو المطر والطين والبرد والعمى تأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج:1، ص: 554، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں