بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد ِطریق پر جماعت ثانیہ کا حکم


سوال

ہماری مارکیٹ میں مصلی ہے ،جس میں دو جماعتیں ہوتی ہیں، پوچھنا یہ تھا کے جہاں پہلے  امام کھڑے  ہوکر پہلی جماعت کراتے ہیں اُسی جگہ دوسرے امام کھڑے ہوکر دوسری جماعت کرواسکتے ہیں؟

2۔اور کیااُسی مصلی پر مغرب کی دوسری جماعت اگر کرائی  جائے تو کتنے وقفے کے ساتھ کرائی جاسکتی ہے

جواب

(1) صورت مسؤلہ میں  اگر یہ جگہ شرعی مسجد نہیں ہے بلکہ صرف نماز کے لئے مختص جگہ (مصلی) ہے تو ضرورت کی بنیاد پر اس جگہ دوسری جماعت کراسکتے ہیں البتہ بہتر یہ ہے کہ دوسری جماعت پہلی جماعت کی ہیئت پر نہ ہو بلکہ محراب سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر دو سری جماعت کرائیں۔

(2)مغرب میں جلدی کرنا افضل ہے،بلا عذر تاخیر کرنا مکروہ ہے،اس لئیےایک ہی جماعت پراکتفاکرنی چاہیے،تاہم ا  گردوسری جماعت کسی عذر کے باعث ناگزیر ہوتو پہلی جماعت کے فور اً بعد دوسری جماعت کرادی جائے، اس میں تأخیرکرنا شرعاً کرا ہت کا باعث ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ما ليس له امام ومؤذن راتب فلايكره التكرارفيه بأذان واقامة."

(كتاب الصلاة،مطلب فی تکرار فی المسجد،ج/ص: 639  ،ط: دارالفکر)

محیط البرہانی میں ہے:

"قال القدوری فی کتابه وان کان المسجد علی قارعة الطریق لیس له قوم معیین فلا بأس بتكرار الجماعت فیه."

(كتاب الصلوة ،جلد:1 ،ص: 351، ط:دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"وقت المغرب من غروب الشمس الی غروب الشفق وھو الحمرۃ".

(كتاب الصلوة، ج1/ص426، ط:دار العلمية)

الموسوعة الفقهية الکویتیۃ  میں ہے:

"وروي عن أبي يوسف: أنه إذا لم تكن ‌الجماعة ‌الثانية على الهيئة الأولى لا تكره، وإلا تكره - وهو الصحيح - وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة."

 ( کتاب الصلاۃ،ج،27/ ص176)

اعلاء السننمیں ہے:

"إنما أكره هذا في مسجد له إمام ومؤذن فأما مسجد بني على ظهر الطريق أو ناحية لا يؤذن فيه مؤذن راتب ولا يكون له إمام معلوم ويصلي فيه المارة ويستظلون فلا أكره ذالك فيه لأنه ليس فيه المعنى الذي وصفت من تفرق الكلمة ثم قال وإنما كرهوا لئلا يجمعوا في مسجد مرتين ، ولا بأس بأن يخرجوا إلى موضع فيجمعوا."

(كرا هة الجماعة في مسجد المحلة :٤/٢٨٣:ط إدارة القرآن)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144407102473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں