بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد دور ہونے کی وجہ سے مغرب کی اذان اور نماز میں وقفہ کرنا


سوال

 ہماری مسجد کے قریب اہلِ حق کی مسجد نہیں، نمازی دور سے آتے ہیں، اس وجہ سے 5. 6 سال  سےہماری مسجد میں مغرب کی اذان کے بعد 3 منٹ کا وقفہ دیتے ہیں، اس صورت میں گنجائش ہے یا ختم کرنی پڑے گی؟

جواب

 واضح رہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں اتنی تاخیر  کی گنجائش ہے  کہ   ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ ہوجائے،نیز اگر دو رکعات سے کم (یعنی دو  منٹ سے  کم )  تاخیر کی جائے   کراہت نہیں آئی گی البتہ   اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مسجد میں لوگوں کی رعایت کرتے ہوئےتین منٹ کا وقفہ دینا زیادہ ہے کراہت سے خالی نہیں ہوگا   ایسی صورت میں تاخیر کرنے کے بجائے لوگوں کو جلد آنے کی ترغیب دی جائےثواب بھی زیادہ ملے گااور نماز بھی مستحب وقت میں شروع ہوجائے گی۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال في «الجامع الصغير» : ويجلس بين الأذان والإقامة إلا في المغرب، وهذا قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: يجلس في المغرب أيضا جلسة خفيفة يجب أن يعلم بأن الفصل بين الأذان والإقامة في سائر الصلوات مستحب  والأصل في ذلك قوله عليه السلام لبلال: «اجعل بين أذانك وإقامتك مقدار ما يفرع الأكل من أكله، والشارب من شربه» ، واعتبر الفصل في سائر الصلوات بالصلاة، حتى قلنا: إن في الصلوات التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب، فالأولى للمؤذن أن يتطوع بين الأذان الإقامة.جاء في تفسير قوله تعالى: {ومن أحسن قولا ممن دعآ إلى الله وعمل صلحا} أنه المؤذن يدعوا الناس بأذانه ويتطوع بعده قبل الإقامة، ولم يعتبر الفصل في المغرب بالصلاة؛ لأن الفصل بالصلاة في المغرب يؤدي إلى تأخير المغرب عن أول وقته، وتأخير المغرب مكروه، وقال النبي عليه السلام؛ «لا تزال أمتي بخير ما لم يؤخروا المغرب إلى اشتباك النجوم» ويؤيده قوله عليه السلام: «بين كل أذانين صلاة إلا المغرب» ، وأراد بالأذانين الأذان والإقامة، وإذا لم يفصل بالصلاة في المغرب يتأدى. بفصل، قال أبو يوسف ومحمد: يفصل بجلسة خفيفة؛ لأن الجلسة صالحة للفصل.ألا ترى أنها صلحت للفصل بين الخطبتين يوم الجمعة، فهنا كذلك، وقال أبو حنيفة يفصل بالسكوت، لأن لما لم يفصل بالصلاة التي هي عبادة، لتكون أقرب إلى الأداء أبعد عن التأخير فلأن لا يفصل ... بعبادة أولى، والفصل يحصل بالسكوت حقيقة، فلا حاجة إلى اعتبار الجلسة للفصل، ثم عند أبي حنيفة مقدار السكتة ما يقرأ ثلاث آيات قصار أو آية طويلة، وروي عنه أنه قال: مقدار ما يخطو ثلاث خطوات، وعندهما مقدار الجلسة ما جلس الخطيب بين الخطبتين من غير أن يطول، وتمكن مقعده على الأرض."

(کتاب الصلوۃ , الفصل السادس عشر فی التغني و الالحان جلد 1 ص: 346 ط: دارالکتب العلمیة)

حاشیہ طحطاوی علی   الدر المختار  میں ہے:

"(قوله: إلی اشتباک النجوم) ظاهره أنها بقدر رکعتین لایکره مع أنه یکره أخذاً من قولهم بکراهة رکعتین قبلها۔ واستثناء صاحب القنیة القلیل یحمل علی ما هو الأقل من قدرهما توفیقاً بین کلام الأصحاب… واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروه تنزیهاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً."

(کتاب الصلوۃ جلد 2 ص: 33 , 34 ط: دارالکتب العلمیة)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407102396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں