بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد بنانے والےکےبیٹےکامسجد پرملکیت کا دعوی کرنےکاحکم


سوال

اگرکسی آدمی کاوالدمسجد میں اپنامال خرچ کرے اورمسجد بنائے ،اس کےمرنےکےبعداس کابیٹامسجدمیں یہ دعوی کرے کہ مسجد میرے باپ نے بنائی ہے، لہٰذا مسجد میری ہے اور میری مرضی چلے گی تو کیا مسجد کے معاملے میں ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کایہ کہنادرست نہیں کہ مسجد میرےوالدنےبنائی ہے،لہٰذا مسجد میری ہے،کیوں کہ مسجد پرکسی کی ملکیت نہیں ہوتی،البتہ اگرمسجدبنانےوالےنےکسی دوسرےکومتولی(نگران)نہیں بنایاتویہ بیٹا متولی بننےکازیادہ حق دارہو گا،بشرط یہ کہ وہ متولی بننےکااہل ہواورمسجد کےامور کی اچھی طرح نگرانی کرسکتاہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الحبس. وشرعا (حبس العين على) حكم (ملك الواقف والتصدق بالمنفعة) ولو في الجملة» والأصح أنه (عنده) جائز غير لازم كالعارية (وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة.

(قوله وعليه الفتوى) أي على قولهما يلزمه. قال في الفتح: والحق ترجح قول عامة العلماء بلزومه؛ لأن الأحاديث والآثار متظافرة على ذلك، واستمر عمل الصحابة والتابعين ومن بعدهم على ذلك فلذا ترجح خلاف قوله اهـ ملخصا."

(کتاب الوقف، 337/4، ط:   سعید)

وفیہ أیضاً:

"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه).

(قوله: ويزول ملكه عن المسجد إلخ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي عند محمد وفي منع الشيوع عند أبي يوسف، وفي خروجه عن ملك الواقف عند الإمام وإن لم يحكم به حاكم كما في الدرر وغيره."

(کتاب الوقف، 355/4، ط:  سعید)

وفیہ أیضاً:

"ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم لوصيه  ثم للقاضي وما دام أحد یصلح للتولیة من أقارب الوقف لا یجعل المتولي من الأجانب لأنه أشفق ومن قصدہ نسبة الوقف إلیهم."

(كتاب الوقف، 414/4، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں