بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد اور مدرسہ کے لیے چندہ کی رقم دینے کی وجہ سے متولی مقرر کرنے کا حق


سوال

ہمارے علاقے کے ایک عالمِ دین نے  ایک دینی ادارہ تعمیر کیا،  ادارہ ھذا کی تعمیر میں تقریباً ساٹھ (60)فیصد تعاون ایک خاتون نے کیا، جب کہ چالیس (40)فیصد تعاون متفرق افراد نے کیا ، ادارے کی تعمیر جاری ہے، البتہ مسجد مکمل ہوگئی ہے،جہاں نماز اورحفظِ قرآن  کے بچوں کی تعلیم جاری ہے،پانچ سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

ادارہ ہذا وفاق المدارس اور سرکار میں مہتمم مذکور کے نام پر رجسٹرڈ ہے، اب پانچ سال کے بعد ساٹھ فیصد تعاون کرنے والی خاتون نے مطالبہ کیا کہ ادارہ کا اہتمام ایک اور شخص کے حوالے کیا جائےجو کہ عالم نہیں  ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ خاتون نے تعاون کرتے وقت کوئی شرط نہیں لگائی تھی، جب کہ باقی معاونین مہتمم مذکور کے حق میں ہیں۔

ایسی صورتِ حال میں شرعی طور پر مذکورہ خاتون کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟

مذکورہ خاتون نے صرف رقم دی تھی بقیہ زمین کی خریداری اور اس پر تعمیر عالمِ دین (متولی و مہتمم )نے چندہ کی رقم سے  کی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ متولی یا کسی ادارے کا اہتمام سنبھالنے کے لیے کسی شخص کو مقرر کرنے کا اختیار واقف کو ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے کسی نیک آدمی کو متولی مقرر کرے، یا کسی شرعی عذر کی بناء پر کسی مقرر شدہ متولی کو معزول کرے اور اس کے بدلے میں کسی دوسرے شخص کو متولی بنائے،اور اگر کسی شخص نے دوسرے آدمی کومسجد یا مدرسہ کی تعمیر کے لیے رقم دی اور اس دوسرے شخص نے اس رقم سے زمین خرید کر اس پر مسجد یا مدرسہ بنایا تو رقم دینے والا متولی نہیں، بلکہ جو شخص لوگوں سے چندہ لے کر مسجد یا مدرسہ  تعمیر کر رہا ہے تو وہ خو دمتولی ہے، اور مسجد یا مدرسہ کے انتظام سنبھالنے کے لیے افراد(کمیٹی یا مہتمم) کے تقرر کا حق چندہ جمع کرنے والے کو حاصل ہوتاہے۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ خاتون نے عالمِ دین کومخصوص  رقم بطورِ تعاون اور چندہ کی  مد میں دی تھی،اوراس رقم  سے مذکورہ عالمِ دین  نے زمین خرید کر اس پر مسجد تعمیر کی اور مدرسہ کی تعمیر کا کام فی الحال جاری ہے ، تو اس صورت میں اس پر متولی یا  مہتمم مقرر کرنے کا حق شرعاً مذکورہ خاتون کو حاصل نہیں ، البتہ بطورِ معاون کے کوئی رائے دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔

در مختار میں ہے:

"(وركنه الألفاظ الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر۔"

(کتاب الوقف،ج:۴، ص:۳۴۰، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط ‌الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به۔"

(کتاب الوقف، مطلب فی وقف المنقول قصداً،ج:۴، ص:۳۶۶، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا كان للوقف متول من ‌جهة ‌الواقف أو من جهة غيره من القضاة لا يملك القاضي نصب متول آخر بلا سبب موجب لذلك وهو ظهور خيانة الأول أو شيء آخر۔"

(کتاب الوقف، مطلب فی النزول عن الوظائف،ج:۴، ص:۳۸۲، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں