بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد اور عبادت خانہ میں فرق


سوال

مسجد اور عبادت خانہ میں کیا فرق ہے؟ اور اس کے کیا احکام ہیں؟

جواب

عبادت خانہ  کسی بھی عبادت کی جگہ  کو کہتے ہیں، یہ عام ہے، مسجد بھی ہوسکتی ہے اور مسجد کے علاوہ کوئی اور جگہ جو عبادت کے لیے مختص کی گئی ہو وہ بھی ہوسکتا ہے۔

جب کہ مسجد شرعی اس کو کہتے ہیں جسے واقف نے باقاعدہ الگ کرکے وقف کردیا ہو، اور اس کی حد بندی کردی ہو اور اسے خاص نماز پڑھنے کے لیے مختص کردیا ہو  اس طور پر کہ بندوں کا حق اس سے متعلق نہ رہے، تو  ایسا کرنے کے بعد وہ جگہ تحت الثریٰ سے ثریا  تک یعنی زمین سے آسمان تک مسجدہوجاتی ہے، اس کے کسی حصہ  کو نماز اور اس کےمتعلقہ امور کے علاوہ دوسرے کام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا۔

جب کہ عبادت خانہ کے لیے نہ وقف ہونا ضروری ہے اور نہ ہی اس کے تمام احکام مسجد والے ہیں، بلکہ عبادت خانہ لغوی اعتبار سے عام ہے، یعنی اہلِ حق کی عبادت گاہ ہو، یا اہلِ باطل کی، اسے عبادت کرنے والوں کی نسبت سے خاص کرکے ان کا عبادت خانہ کہا جاسکتاہے، جب کہ ’’مسجد‘‘ ایک شرعی اصطلاح بن گئی ہے، جسے صرف مسلمان استعمال کرتے ہیں، لہٰذا از روئے قانون بھی ’’مسجد‘‘ کی اصطلاح صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لیے مخصوص ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)

 (قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لا ينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدًا، فإنه لاينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لايحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدًا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لايصير مسجدًا بلا حكم وهو بعيد، كذا في الفتح ملخصًا. ولقائل أن يقول: إذا قال: جعلته مسجدًا فالعرف قاض، وماض بزواله عن ملكه أيضًا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لايتردد فيه، نهر.  
قلت: يلزم على هذا أن يكتفى فيه بالقول عنده، وهو خلاف صريح كلامهم، تأمل ، وفي الدر المنتقى: وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف، وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ". 
(4/ 355، کتاب الوقف، ط: سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله أن شرط كونه مسجدًا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفًا لمصالح المسجد فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، و هناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتًا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجدًا ثم أراد أن يبني فوقه بيتًا للإمام أو غيره هل له ذلك؟ قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجدًا وبنى غرفةً وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك فإنه لايصدق. اهـ". (5/ 271،  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں