بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد اور غرباء میں سے کس کو پیسے دینا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے


سوال

میں نے کاروبار شروع کیا ہے، جس میں ایک فیصد ہر مہینے  اللہ کے راہ میں دینا چاہتا ہوں ، آیا یہ میں مسجد میں دوں یا غریب مسکین کو دوں؟ ثواب کس میں زیادہ ہے ؟ شرعی طور پر راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صدقات وخیرات کا افضل اور بہتر مصرف  موقع محل اور ضرورت وحاجت کے اعتبار سےمختلف ہوسکتا ہے، جس وقت جہاں زیادہ ضرورت ہو وہاں ان صدقات کے خرچ کا ثواب زیادہ ہوگا، مثلاً اگر کہیں کوئی رشتہ دار زیادہ ضرورت مند ہے تو عام فقراء کی بہ نسبت ان کو  صدقہ دینے میں صدقہ کے ثواب کے ساتھ صلہ رحمی کا ثواب بھی ہوگا، یا کوئی سفید پوش، نیک صالح شخص غریب ہے، یا کوئی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کے خاندان کا سید شخص محتاج ہے تو اس کو صدقہ دینے کا ثواب زیادہ ہوگا، اور اگر کہیں اِحیاءِ دین  کے لیے مدارس کی ضرورت ہے، یا مسجد کی ضرورت ہے  یا مدارس کے طلباء زیادہ محتاج ہیں تو  ان کو صدقہ کرنا زیادہ افضل ہوگا، غرض یہ ہے کہ موقع محل اور ضرورت کے اعتبار سے دیکھ لیا جائے کہ کہاں ضرورت زیادہ ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے صدقات وہاں صرف کیے جائیں۔

 عام حالات میں مدارسِ دینیہ کا تعاون کرنا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے  ہیں، ان کو مالی امداد کے  ذریعے مضبوط  کرکے باقی رکھنا دین کی بقاہے، مدارس کے غریب طلبہ کو زکات دینے میں  شریعتِ مطہرہ کی ترویج واشاعت میں تعاون ہے۔

لہذا صورت مسؤلہ میں  مسجد  میں زیادہ ضرورت ہو تومسجد  میں خرچ کریں اوراگر غریب مسکین  کو زیادہ ضرورت ہو تواس پرصدقہ کردیں ۔

علامہ شامی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل كما ورد: «حجة أفضل من عشر غزوات». وورد عكسه فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل، وكذا بناء الرباط إن كان محتاجاً إليه كان أفضل من الصدقة وحج النفل وإذا كان الفقير مضطراً أو من أهل الصلاح أو من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم فقد يكون إكرامه أفضل من حجات وعمر وبناء ربط. كما حكى في المسامرات عن رجل أراد الحج فحمل ألف دينار يتأهب بها، فجاءته امرأة في الطريق وقالت له: إني من آل بيت النبي صلى الله عليه وسلم وبي ضرورة فأفرغ لها ما معه، فلما رجع حجاج بلده صار كلما لقي رجلاً منهم يقول له: تقبل الله منك، فتعجب من قولهم، فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في نومه وقال له: تعجبت من قولهم: تقبل الله منك؟ قال: نعم يا رسول الله؛ قال: إن الله خلق ملكاً على صورتك حج عنك؛ وهو يحج عنك إلى يوم القيامة بإكرامك لامرأة مضطرة من آل بيتي؛ فانظر إلى هذا الإكرام الذي ناله لم ينله بحجات ولا ببناء ربط".

(کتاب الحج ،مطلب في تفضيل الحج على الصدقة، (2/ 621)ط:دارالفکر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں