بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں رکھی ٹوپیوں میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

مساجد میں رکھی ہوئی ٹوپیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے، ہمارے اردو فتاوی میں تین قسم کی آراء ملتی ہیں ،بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگر مسجد کی ٹوپی صاف ہو تو بلا کراہت اس میں نماز پڑھنا جائز ہے ، اور بعض حضرات نے مکروہ ِ تنزیہی لکھا ہے اور بعض  حضرات نے صرف مکروہ لکھاہے ، اور ہمارے ایک دوست مفتی  صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ مسجد میں رکھی ہوئی ٹوپیوں میں  نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے ، اور اس فتویٰ پر مفتی عبد الشکور ترمذی ؒ اور ان کے بیٹے مفتی عبد القدوس ترمذی کی تصدیق بھی ہے ۔فقہ حنفی کی روشنی میں  مفتی ٰ بہ قول سے آگاہ فرمائیں ؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں رکھی ہوئی ٹوپیوں میں نما ز پڑھنے کو علماء نے ثیاب المھنۃ وثیاب البیت پر قیاس کیا ہے کہ جس طرح ثیاب المھنۃ و ثیاب البیت میں آدمی کسی معزز مجمع  وتقریب میں جانے میں عار محسوس کرتاہے بالکل اسی طرح مسجد میں رکھی پلاسٹک یا چٹائی کی ٹوپیوں میں آدمی معزز مجمع  و تقریب میں جانے میں عار محسوس کرتا ہے  اور ثیاب المھنۃ وثیاب البیت میں نماز کی کراہت تنزیہیہ کا قو ل  اکثر فقھاء احناف نے کیا ہے ، جیساکہ علامہ  شامی  نے  اس کراہت کو کراہت  تنزیہیہ کہا ہے ،اور جن حضرات نے صرف مکروہ کہا ہے اس سے مراد بھی مکروہ ِ تنزیہی ہی ہے،لہذا مسجد میں رکھی چٹائی اور پلاسٹک کی ٹوپیوں میں نماز مکروہ ِ تنزیہی ہوگی نہ کہ مکروہِ تحریمی ،لیکن اگر اس کو عادت بنالیا جائے یا وہ ٹوٹی پھوٹی اور میلی کچیلی ہوں تو پھر اس صورت میں ان میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی کے قریب ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وصلاته في ثياب بذلة) يلبسها في بيته (ومهنة) أي خدمة، إن له غيرها وإلا لا.

(قوله: وصلاته في ثياب بذلة) بكسر الباء الموحدة وسكون الذال المعجمة: الخدمة والابتذال، وعطف المهنة عليها عطف تفسير؛ وهي بفتح الميم وكسرها مع سكون الهاء، وأنكر الأصمعي الكسر، حلية. قال في البحر: وفسرها في شرح الوقاية بما يلبسه في بيته ولايذهب به إلى الأكابر، والظاهر أن الكراهة تنزيهية. اهـ".

(كتاب الصلاة،باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها،640/1 ،ط: ايچ ايم سعيد )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتكره الصلاة في ثياب البذلة. كذا في معراج الدراية."

(كتاب الصلاة، الباب السابع في مايفسد الصلاة و مايكره فيها، الفصل الثاني في ما يكره في الصلاة، 107/1 ، ط: رشيدية)

احسن الفتاوی میں ہے:

"جو لباس پہن کر انسان کسی مجلس میں جانے سے شرماتا ہو ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اس پر دوام مکروہِ تحریمی کے قریب ہے۔"

(باب مفسدات الصلاۃ و المکروہات، 437/3 ، ط: ایچ ایم سعید)

آپ کے مسائل اور ان کاحل میں حضرت لدھیانوی صاحب ؒ لکھتے ہیں:

"اورمسجد کی ٹوپیاں اگر صاف ستھری ہوں تو ان کو پہن کونماز پڑھ سکتے ہیں ،اور اگر ٹوٹی پھوٹی اور میلی کچیلی ہوں تو ان کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے،اصول یہ ہے کہ ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے جس کو پہن کر آدمی عام مجلس میں شرکت نہ کرسکتاہو۔"

(مسجد کے مسائل ، 277/3   ، ط: مکتبۂ لدھیانوی )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں