کیا اپنے مرحومین کے لیے مسجد میں اجتماعی طریقہ سے ایصالِ ثواب کے لیے کلمہ طیبہ کا مغرب کی نماز کے بعد ورد کرنا اور ساتھ میں چاۓ اور شیرینی (مٹھائی ) بانٹناجائزہے؟
میت کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآنِ کریم پڑھ کر یا کوئی اور عبادت کرکے اُسے بخشنا بلاشبہ جائز ہے اور یہ ثواب میت تک پہنچتا ہے، البتہ اس کے لیے کسی خاص وقت یا خاص محفل کا اہتمام کرنااور پھر مسجد میں محفل کے بعد کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم کااہتمام والتزام کرنا شرعاً درست نہیں ،اور ایصالِ ثواب کے لیے پڑھنے والوں کو کھانے پینے کی اشیاء دینا بغیر التزام کے بھی جائز نہیں ہے۔ مذکورہ طریقہ اپنانے کے بجائے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہر شخص اپنے طور پر انفراداً ایصالِ ثواب کرے۔
کفایت المفتی میں ہے :
"رسم قل، دسواں، چالیسواں اور شرینی پر فاتحہ پڑھنا سب بدعت ہے:
(سوال) میت کے لیے تیسرے دن قل و ساتواں و چالیسواں کرنا اور اسقاط میت کا کرانا، جیساکہ آج کل مروج ہے ایسا کرنا قرآن و حدیث صحیحہ سے ثابت ہے یا نہیں؟ (2) فاتحہ بر طعام قبل از کھانے کے پڑھنا قرآن و حدیث صحیحہ سے ثابت ہے یا نہیں؟
المستفتی نمبر 1188عبدالعزیز مشین والا ( ضلع سیالکوٹ) ۲۸ جمادی الثانی ۱۳۵۵ھ ۱۶ ستمبر ۱۹۳۶ء۔
(جواب 158) ایصالِ ثواب جائز ہے، مگر قل اور ساتواں، دسواں، چہلم یہ سب بدعات ہیں۔، اپنی حیثیت اور مقدار کے موافق جو کچھ میسر ہو اور جب میسر ہو صدقہ کرکے ثواب بخش دینا چاہیے، اسقاط کا مروجہ طریقہ بھی ناجائز ہے، ایصالِ ثواب کے لیے کھانا شیرینی سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا بے اصل ہے، بلکہ جیسے نقدی وغیرہ بغیر فاتحہ صدقہ کردیتے ہیں اسی طرح کھانے شیرینی کے ساتھ بھی معاملہ کرنا چاہیے۔محمدکفایت اللہ کان اللہ لہ‘ دہلی".
(کفایت المفتی 134/4، کتاب الجنائز،ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206200719
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن