بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پربیان وغیرہ کا حکم


سوال

میرے گھر کے سامنے ایک مسجد ہے جس میں لاؤڈ اسپیکر پر قرآن کا ترجمہ وتفسیر ،بیان اور نعت خوانی کی محفل وغیرہ ہوتی رہتی ہے ،جس کی وجہ سے ہمارااپنے گھر میں سکون سے سونا ،پڑھنا اور رہنا  سب کچھ محال ہوچکا ہے ، جب کہ مولوی صاحب اپنی روش پر اڑا ہوا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر کام نہیں چلے گا ، وہ ہماری بات نہیں مانتااور اپنی من مانی کررہا ہے ، اب آپ بتائیں کہ کیا ہم یہ گھر چھو ڑ دے؟ ، کا فر بن جائیں یا کیا کیا جائے ، اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم کی تعلیمات تو ہمارے لیے ایسی نہیں ہے۔

جواب

قرآنِ مجید کا درس دینا اور  تلاوت وغیرہ  کرنا نیکی کا کام اور ثواب کا ذریعہ ہے،  البتہ درسِ قرآن وغیرہ کے لیے  آواز کوسامعین کی حد تک محدود  رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے،اور مسجد كا اندرونی اسپیکر ہی استعمال کرنا چاہیے، مسجد کے بیرونی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا جس کی وجہ سے  آواز محلے میں گونجے  جس كي وجہ سے کسی مریض کے آرام میں،عبادت کرنے والے کی عبادت میں ،سونے والے کے آرام میں    یا کوئی بھی نجی عمل کرنے والے کے عمل میں خلل واقع ہو اور دوسروں کے لیے ایذاء  کا باعث ہو یہ  طریقہ  عقلاً و شرعاً بالكل بھی درست نہیں ہے، مزید خرابی یہ کہ اس میں قرآن کریم اور دین  کے تقدس کی پامالی بھی ہوتی ہے،  اذان کے علاوہ پنجگانہ نماز وں ، تراویح یا درس و تقریر میں باہر کے اسپیکر کھول دینے میں   اپنے خیال میں تو شاید نیکی کا کام سمجھا جاتا ہو،لیکن  اس فعل پر بہت سے مفاسد مرتب ہوتے ہیں ،اور بہت سے محرمات کا ارتکاب  لازم آتا ہے، اور یہ سب محرمات گناہ کبیرہ میں داخل ہیں، اس لئے لاؤڈ اسپیکر کی آواز مسجد  کی حدود تک محدود رکھنی ضروری ہے ،کیوں کہ  قرآن اور حدیث اس بات سے بھرا ہوا ہے کہ اپنی ذات سے دوسروں کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جاۓ، اور قدم قدم پر شریعت نے اس کی تاکید بھی کی ہے ۔

لہٰذا سائل مسجد کے امام صاحب اور مسجد انتظامیہ سے مل کر اس سلسلہ میں گفتگو کرے ،پیار محبت سے بات کرنے سے امید ہے کہ اس  مسئلے کا کوئی ایسا حل نکل آئے گا جو اہل ِمحلہ کےلیے بھی سکون کاباعث ہوگااور مسجد سے لوگوں کی اصلاح کا سلسلہ بھی متاثر نہیں ہوگا، اور  مذکورہ مسجد کے امام صاحب کو بھی چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال کرتے ہوئے بیرونی لاؤڈاسپیکر کا استعمال نہ کریں ،ایسا نہ ہو کہ ان کے اس فعل سے ایک مسلمان پریشان ہو اور تکلیف میں مبتلا رہے ۔

سنن نسائی میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم".

(كتاب الإيمان وشرائعه،صفة المؤمن،266/2، ط: قدیمي)

فتاوی شامی میں ہے:

"أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعة في المساجد وغیرها إلا أن یشوش جهرهم علی نائم أو مصل أو قارئ".

(كتاب الصلاة ،باب الإمامة 660/1، ط: سعيد)

وفيه ايضا:

"وفي الفتح عن الخلاصة: ‌رجل ‌يكتب ‌الفقه ‌وبجنبه ‌رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارئ وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم اهـ أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه، أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم".

(كتاب الصلاة ، فصل في القراءة546/1،ط: سعيد)

فقط ولله اعلم


فتوی نمبر : 144410100742

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں