بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے چندہ بکس کا مصرف


سوال

1:ہماری مسجد میں دو چندہ بکس رکھے ہوئے ہیں، جس میں سے ایک پر چندہ برائے مسجد  اور دوسرے بکس پر چندہ  برائے ضروریاتِ مسجد لکھا ہوا ہے، اور مسجد کی ضروریات ولوازمات میں امام، مؤذن، خادم، قاری، اور مسجد کا وضو خانہ اور بیت الخلاء  کی صفائی کرنے والے عملہ کی تنخواہیں، بجلی، گیس، پانی کے بل ، مسجد، وضو خانہ، بیت الخلاء کی تعمیر وترقی شامل ہے، تو کیا یہ چیزیں ضروریاتِ مسجد میں داخل ہے؟

2:ان دونوں مذکورہ بکس کے چندے کو کہاں کہاں خرچ کیا جاسکتا ہے؟

وضاحت:پہلے والے بکس(یعنی جس پر چندہ برائے مسجد لکھا ہے) کے چندے سے کوئی خاص مصرف کی نیت نہیں کی ہے، بلکہ اس سے بھی ضروریات مسجد ہی کی نیت ہے۔

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ باتیں یعنی امام، مؤذن، خادم، قاری (اگر اسے مسجد کی کمیٹی نے مقرر کیا ہو )، بجلی اور گیس کے بل، وضو خانہ، بیت الخلاءاور مسجد کی تعمیرات،  مسجد کے مصالح وضروریات میں شامل ہیں۔

2:مسجد کے لیے کیے جانے والا چندہ بھی ضروریاتِ مسجد کے لیے ہوتا ہے، لہذا  جس ڈبے پر "چندہ برائے مسجد" لکھا ہوا ہے، اسی طرح وہ ڈبہ  جس پر "چندہ برائے ضروریاتِ مسجد" لکھا ہے دونوں کا مصرف مسجد کی ضروریات ہیں، لہذا شق نمبر ایک میں ذکر کردہ ضروریات میں ان ڈبوں کے چندے کو خرچ کیا جاسکتا ہے، تاہم ایسی صورت مناسب یہی ہے کہ چندے کے لئے دو بکس رکھنے کے بجائے ایک بکس رکھا جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"والذي يبتدأ به من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف أو لا ثم ما هو أقرب إلى العمارة وأعم للمصلحةكالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح. اهـ.

وقوله إلى آخر المصالح أي مصالح المسجد فيدخل المؤذن والناظر لأنا قدمنا أنهم من المصالح وقدمنا أن الخطيب داخل تحت الإمام لأنه إمام الجامع فتحصل أن الشعائر التي تقدم في الصرف مطلقا بعد العمارة الإمام والخطيب والمدرس والوقاد والفراش والمؤذن والناظر وثمن القناديل والزيت والحصر ويلحق بثمن الزيت والحصر ثمن ماء الوضوء أو أجرة حمله أو كلفة نقله من البئر إلى الميضأة فليس المباشر والشاهد والجابي والشاد وخازن الكتب من الشعائر وقد جرت العادة بمصر في ديوان المحاسبة بتقديمهم مع المذكورين أولا وليس شرعيا ويقع الاشتباه في البواب والمزملاتي وفي الخانية لو جعل حجرته لدهن سراج المسجد ولم يزد صارت وقفا على المسجد إذا سلمها إلى المتولي وعليه الفتوى وليس للمتولي أن يصرف الغلة إلى غير الدهن اهـ.

فعلى هذا الموقوف على إمام المسجد لا يصرف لغيره وفي الخانية رجل أوصى بثلث ماله لأعمال البر هل يجوز أن يسرج المسجد منه قال الفقيه أبو بكر يجوز ولا يجوز أن يزاد على سراج المسجد لأن ذلك إسراف سواء كان ذلك في رمضان أو غيره ولا يزين المسجد بهذه الوصية. اهـ.

ومقتضاه منع الكثرة الواقعة في رمضان في مساجد القاهرة ولو شرط الواقف لأن شرطه لا يعتبر في المعصية وفي القنية وإسراج السرج الكثيرة في السكك والأسواق ليلة البراءة بدعة وكذا في المساجد ويضمن القيم وكذا يضمن إذا أسرف في السرج في رمضان وليلة القدر ويجوز الإسراج على باب المسجد في السكة أو السوق ولو اشترى من مال المسجد شمعا في رمضان يضمن قلت: وهذا إذا لم ينص الواقف عليه ولو أوصى بثلث ماله أن ينفق على بيت المقدس جاز وينفق في سراجه ونحوه قال هشام فدل هذا على أنه يجوز أن ينفق من مال المسجد على قناديله وسرجه والنفط والزيت اهـ".

(کتاب الوقف، الاستدانة لأجل العمارة في الوقف، ج:5، ص:230، ط:دارالکتاب الإسلامی)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"فأما عمارة مسجد أو رباط أو نحو ذلك مما هو ليس بأهل للتمليك لا يجوز صرف الغلة إليه لأن التصدق عبارة عن التمليك فلا يصح إلا ممن هو من أهل التمليك اهـ."

(کتاب الوقف، وقف ضيعة على مواليه ومات، ج:5، ص:225، ط:دارالکتاب الإسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة".

(کتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة والعرف يصلح مخصصا، ج:4، ص:445، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں