ہمارے علاقے میں ایک مسجد ہے ، نمازیوں کی تنگی کی وجہ سے مسجد کے متصل ایک پلاٹ خریدا ہے، تاکہ مسجد کی توسیع ہوسکے، مگر اس کے ساتھ ارادہ ہے مسجد کی اس نئی توسیع کے اوپر مدرسہ ہو، اور تعمیر سے پہلے ہی اس کی نیت ہے۔
اب سوال یہ ہے پرانی مسجد تو اوپر مسجد ہے، مگر نئے حصہ کے اوپر مدرسہ ہے،کیا اس طرح درست ہے مدرسہ کی نیت نئے حصہ کی تعمیر سے پہلے ہے ?
اگر مذکورہ جگہ مسجد کی توسیع کی نیت سے خریدی گئی ہے، اس کو مسجد کے ساتھ مسجد کی حیثیت میں شامل کریں تو وہ جگہ مسجد بن جائے گی اور اس کے اوپر مدرسہ میں دینی علوم کی تعلیم دینا تودرست ہوگا، مگر اوپر چھت کو مسجد کے علاوہ کوئی حیثیت دینا جائز نہیں ہے۔
اور اگر یہ جگہ خریدتے وقت نیت کچھ اور تھی، تو وضاحت کرکے دوبارہ سوال ارسال کردیجیے، نیز یہ بھی وضاحت کردیجیے کہ تعمیرات کے منتظمین کی کیا حیثیت ہے اور یہ پلاٹ کس مد سے خریدا گیا؟
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية". (2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفه، ط: رشیدیه)
البحر الرائق میں ہے:
"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن ولايتعين مكان مخصوص لأحد". (2 / 36 ، کتاب الصلاۃ، فصل ، ط؛ دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
وجعل المسجدين واحدا وعكسه لصلاة لا لدرس، أو ذكر في المسجد عظة وقرآن، فاستماع العظة أولى
(قوله لا لدرس أو ذكر) لأنه ما بني لذلك وإن جاز فيه، كذا في القنية،(فروع افضل المساجد،ج:1،ص:663،ط:ایچ سعید) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144112200122
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن