بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی اشیاء نجی استعمال میں لانا


سوال

مسجد کے بارے میں چند سوالات کے جوابات درکارہیں:

1۔ہماری مسجد میں ہم نے پانی کی بورنگ کی ہے، جس کا پانی مسجد کے ساتھ اہل محلہ بھی استعمال کرتے ہیں،ہم نے ایک ٹینکی بنارکھی تھی، اب کسی نے وہ توڑدی ہے جس کی وجہ سے محلے والے اب پانی استعمال نہیں کرسکتے ،تاہم اس پانی سے ابھی کمیٹی کے دو افراد نے پائپ لائن اپنے گھر تک  بچھائی ہیں یعنی اہل محلہ میں صرف دو ہی گھر اس پانی سے مستفید ہوتے ہیں ،اس کا کیا حکم ہے؟

2۔ہمارے محلے کے لوگ مسجد کی چیزوں کو اپنے استعمال میں رکھنا چاہتے ہیں مثلاًبجلی کے تار، بلب،پنکھے وغیرہ جو ضرورت کے لیے رکھے ہوتے ہیں، میں اگر کسی کو منع کروں تو میرے خلاف باتیں کرتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ میرا یہ عمل شرعاً درست ہے یا نہیں ؟

جواب

1۔مسجد کی زمین پر مسجد کے   پانی کےلیےبنائی ہوئی بوروقف ہے اور بجلی بھی مسجد کےلئے وقف ہے ،لہذا اس  سے محلہ والوں کا اپنے گھروں کے لئے پائپ لائین لگانا اور مسجد کمیٹی کا اس کی اجازت دینا درست نہیں ،انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ مسجد کی املاک کو غلط استعمال سے روکے، چہ جائے کہ وہ خود یہ غلطی کرے۔

2۔مسجد کی اشیاء مسجد ہی کےلیے وقف ہوتی ہیں،محلہ والوں کا اسے  استعمال میں لانا جائز نہیں ہے اور مسجد انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسجد کی املاک کی حفاظت کرے اور غیر متعلقہ لوگوں کو استعمال کرنے سے روکے،نیز  آپ  کا ان کو منع کرنا درست  ہے،اہل محلہ کو پیارومحبت سے مسئلہ سمجھاکر شرعی حکم پر عمل کرانے کی کوشش جاری رکھیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب، مطلب في ما يجوز من التصرف بمال الغير، 200/6، ط: دار الفکر)

دررالحکام میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة، المادة: 97، ج:1، ص:98، ط:دار الجیل) 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین،4/ 445، ط: دار الفکر)

وفيه ايضاً:

"‌شرط ‌الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة."

 (‌‌كتاب الوقف، مطلب في قولهم ‌شرط ‌الواقف، 4/ 433، ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"شرب الماء من السقاية جائز للغني والفقير، كذا في الخلاصة.

 ويكره رفع الجرة من السقاية وحملها إلى منزله؛ لأنه وضع للشرب لا للحمل، كذا في محيط السرخسي.

 وحمل ماء السقاية إلى أهله إن كان مأذونا للحمل يجوز وإلا فلا كذا في الوجيز للكردري في المتفرقات."

(کتاب الکراھیة، الباب الحادی عشر، 5/ 341، ط: دار الفکر)

وفیھاأیضاً:

"حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية."

(کتاب الوقف، الباب الأول، 2/ 350، ط: دار الفکر)

وفیھاایضاً:

"ولا يحمل الرجل سراج المسجد إلى بيته ويحمل من بيته إلى المسجد. كذا في الخلاصة ولا بأس بأن يترك سراج المسجد في المسجد إلى ثلث الليل ولا يترك أكثر من ذلك إلا إذا شرط الواقف ذلك أو كان ذلك معتادا في ذلك الموضع. كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الصلوۃ، الباب السابع، الفصل الثانی، 1/ 110، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں