بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے امام ومؤذن کواضافی الاؤنس دینے کا حکم


سوال

ہمارے شہر کی ایک آباد مسجد ہے، جس کی آمدنی سے مؤذن، امام و خطیب کے مشاہرہ کے علاوہ ان کے نکاح/عمرہ وغیرہ کے لیے فی سال کے تناسب سے(20000) روپے مختص کرکے بطورِ الاؤنس ان کو دینا کیسا ہے؟ مثلا جس کی مدت خدمت( 5)سال ہے، اس کو ایک لاکھ روپے اور جس کی اڑھائی سال ہے، پچاس ہزار دینا، نیز امام و مؤذن کی تقرری عمل میں لاتے وقت یہ سالانہ الاؤنس طے نہیں پاگیا ہے، اب جب رقوم مسجد کی اکاؤنٹ میں ہیں، تب اس کو بانٹنے کا خیال آیا ہے۔ یہ بانٹنے والے منتظم بھی ہیں اور امام و مؤذن بھی خود ہیں، جو اپنے لیے حیلہ کے ذریعے یہ حلال کرنے کی خواہاں ہیں ، ابھی سب منتظمین کا مسجد آمدنی کو آپس میں مدت خدمت کے تناسب سے تقسیم کرنا عندالشرع کیسا ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسجد کی آمدنی کا مصرف مسجد کی ضروریات ہی ہے، اور مسجد کی ضروریات میں امام وخطیب اور مؤذن شامل ہے، جس کی بناء پر ائمہ مساجد، موذنین اور خدام کے وظائف میں وقتافوقتاًمہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب شرح کے ساتھ ان کے  مشاہرہ  میں اضافہ درست ہے تاہم اگر ان تنخواہیں معقول اور بقدرضرورت ہیں تو پھر الاؤنس کے عنوان سے انہیں مزید دینا درست نہیں اور اگر مشاہرہ وغیرہ بقدرضرورت نہیں ہے توانہیں کسی عنوان سے اضافہ دیا جاسکتا ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"والذي يبتدأ به من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف أو لا ثم ما هو أقرب إلى العمارة وأعم للمصلحةكالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح. اهـ.

وقوله إلى آخر المصالح أي مصالح المسجد فيدخل المؤذن والناظر لأنا قدمنا أنهم من المصالح وقدمنا أن الخطيب داخل تحت الإمام لأنه إمام الجامع فتحصل أن الشعائر التي تقدم في الصرف مطلقا بعد العمارة الإمام والخطيب والمدرس والوقاد والفراش والمؤذن والناظر وثمن القناديل والزيت والحصر اهـ".

(کتاب الوقف، الاستدانة لأجل العمارة في الوقف، ج:5، ص:230، ط:دارالکتاب الإسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں