ہم پانچ بھائی ہیں، ہر بھائی کا اپنا کاروبار ہے ،اور میں مدرسے کا طالب علم ہوں،شادی شدہ ہوں،اور امامت کرتا ہوں ،ہمارا اپنا ایک گھر ہےجس میں ہم سب بھائی رہتے ہیں، اور ایک پلاٹ ویسے پڑا ہے اور دونوں ابو کے نام ہیں جو کہ حیات ہیں ،اب میرے ہاتھ میں میری تنخواہ کے پیسوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، وہ بھی سب خرچ ہو جاتی ہے کیا میں زکوٰۃ اور قربانی کی کھالیں لے سکتا ہوں؟
واضح رہے کہ جس شخص کی ملکیت میں ضرورت اصلیہ سے زائد نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کے بقدر نقدرقم،مال تجارت، یا دیگر ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر ہو،تو اس شخص کو زکوٰۃ دینا جائز ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے پاس تنخواہ کے علاوہ اتنامال نہیں بچتاجو نصاب (یعنی ساڑھےباون تولہ چاندی)کی مقدار تک پہنچتاہواورسائل کو ماہانہ تنخواہ جو مل رہی ہے اس سے اس کے گزر اوقات نہیں ہوتے ہوں تو اس صورت میں اپنے گزر اوقات کی ضرورت کے مطابق زکوۃ لے سکتا ہے۔
باقی سائل کے لیے قربانی کی کھالیں لینے میں تفصیل یہ ہے کہ سائل کو تنخواہ کی مد میں قربانی کی کھالیں لوگوں سے لیناجائز نہیں ہے، البتہ اگر تنخواہ کے علاوہ محض اس کو طالب علم، عالم یا حافظ ہونے کی وجہ سے کھال ہدیہ دے دیں یا غریب ہونے کی وجہ سے کھال دیں تو سائل کا قربانی کی کھال لینا جائز ہے۔
ملحوظ رہے کہ یہ مسئلے کا شرعی حکم ہے، سائل یا کسی مخصوص شخص کے لیے تصدیق یا سفارش نہیں ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ."(التوبة،60 )
ترجمہ:"صدقات توصرف حق ہی غریبوں کااور محتاجوں کااور جو کارکن ان صدقات پرمتعین ہیں اور جن کی دلجوئی کرناہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ میں اور جہاد میں اور مسافروں میں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔"(بیان القرآن)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."
(کتاب الزکاۃ، ج:2، ص:339، ط:سعيد)
اعلاءالسنن میں ہے:
"ولأن ما یدفعه إلی الجزار أجرۃ عوض عن عمله وجزارته، ولا تجوز المعاوضة بشيء منھا، فأما إن دفع إلیه لفقرہ أو علی سبیل الھدیة، فلا بأس به؛ لأنه مستحق للأخذ."
(كتاب الأضحية، باب التصدق بلحوم الأضاحي، 29/17، ط: دار الکتب العلمیة)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولا أن يعطي أجر الجزار والذابح منها، فإن باع شيئا من ذلك بما ذكرنا نفذ عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى، وعند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا ينفذ ويتصدق بثمنه، كذا في البدائع."
(كتاب الأضحية، الباب السادس في بيان ما يستحب في الأضحية والإنتفاع بها، ج:5، ص:301، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144506102614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن