بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازِ فجر مسجدِ نبوی میں ادا کرنے کے بعد اشراق مسجدِ قبامیں ادا کرنا


سوال

مسجد نبوی میں نماز فجرپڑھنے کے بعد اشراق کی نماز مسجد قبا میں ادا کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رهے كه اشراق کی نماز کے حوالے سے احادیث میں خصوصی فضیلت آئی ہے کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے، پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کو کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا، اس لیے اگر مسجد میں نماز والی جگہ بیٹھ کر ذکر وغیرہ میں مشغول رہے اور وہیں اشراق کی نماز ادا کرے تو اس کی فضیلت  كسي اور مسجد گھروغیرہ پر اشراق ادا کرنے سے زیادہ ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد نبوی میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مذکورہ فضیلت حاصل کرنے کے لیے مسجد نبوی ﷺ میں ہی(اپنی جگہ) اشراق کی نماز ادا کرنی چاہیے ،تاہم اگر وہاں سے چلا جائےاور  مسجدِ قبامیں بھی اشراق  کی نماز اد کر لے تو اشراق کی نماز کا ثواب تو بہر حال مل  ہی جائے گا ،البتہ مذکورہ  کامل حج و عمرہ  کے ثواب والی فضیلت حاصل نہیں ہو گی ۔

علاوہ ازیں دو رکعت نماز نفل مسجدِ قباء میں ادا کرنے کاثواب عمرہ کی مانند/برابر ہے ،لہذاجوہوسکے کرلیجئے،حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہفتہ کے روز(ہفتہ کے روز یا ہفتے میں ایک بار دونوں قول موجود ہیں ،مشہور یوم السبت ہی ہے) پیدل یاسوار مسجدِقباء تشریف لاتے ،اور دو رکعت نمازادافرماتے ،آپ ﷺکاارشادپاک ہے "جو شخص گھر سے وضو کرکے مسجدِقباء آئے اور دورکعت نمازاداکرے اسکو عمرہ جتنا ثواب ملےگا۔"ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ اشراق مسجدِ نبوی میں اداکرکے دو رکعت نماز مسجدِ قباء میں بھی اداکرلیں ،تمام کی فضیلت وثواب پالیں گے ۔

صحیح بخاری میں ہے :

'' عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتي مسجد قباء كل سبت، ماشياً وراكباً»۔ وكان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما «يفعله»."

 (‌‌كتاب الصلوة،باب من أتى مسجد قباء كل سبت2/ 61،داراطوق النجاة)

:وفي سنن الترمذي

'' قال: حدثنا أبو الأبرد، مولى بني خطمة، أنه سمع أسيد بن ظهير الأنصاري، وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلاة في مسجد قباء كعمرة»."

(باب ما جاء في الصلاة في مسجد قباء،ج:1،ص:356 ،ط:دارالغرب الإسلامي)

وفي سنن ابن ماجه :

''حدثنا محمد بن سليمان الكرماني، قال: سمعت أبا أمامة بن سهل بن حنيف، يقول: قال سهل بن حنيف: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تطهر في بيته ثم أتى مسجد قباء، فصلى فيه صلاة، كان له كأجر عمرة.''

(باب ما جاء في الصلاة في مسجد قباء،ج:2،ص:416،ط:دارالرسالة العالمية)

سننِ ترمذی میں ہے :

"عن ‌أنس قال: قال رسول  الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة». قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌تامة ‌تامة ‌تامة۔"

(كتاب الصلوة ،باب ذكر ما يستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس،ج:1 ،ص:582 ،ط:دارالغرب الإسلامي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وعن معاذ بن أنس الجهني) : منسوب إلى قبيلة جهينة مصغرًا. (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قعد) ، أي: استمر (في مصلاه) : من المسجد أو البيت مشتغلًا بالذكر أو الفكر، أو مفيدًا للعلم، أو مستفيدًا، أو طائفًا بالبيت (حين ينصرف) ، أي: يسلم (من صلاة الصبح حتى يسبح) ، أي: إلى أن يصلي (ركعتي الضحى)، أي: بعد طلوع الشمس وارتفاعها (لا يقول) ، أي: فيما بينهما (إلا خيرًا) : وهو ما يترتب عليه الثواب، واكتفى بالقول عن الفعل. (غفر له خطاياه) ، أي: الصغائر، ويحتمل الكبائر (وإن كانت أكثر من زبد البحر ". رواه أبو داود)."

(كتاب الصلوة ،باب صلوة الضحي،3 / 982 ،ط: دار الفكر)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے :

"(سوال)صبح  کی نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھنے سے حج کا ثواب ملتاہے ،بہشتی  زیورمیں لکھا ہے اس وقت تک  کہ اشراق کا وقت ہو ،اگر خاموشی  کے ساتھ اپنے گھر آئے اور تلاوت قرآن  کرتارہے ،نمازِ اشراق  پڑھ کر اٹھے ،آیااس کو بھی ثواب ملے گا یا نہیں ؟"

الجواب حامدا ومصلیاً:

"اس کے لیے یہ ثواب نہیں ہے ،کیوں کہ بعض روایات میں اس کی تصریح ہے ،جیسا کہ خود بہشتی زیر میں بھی  موجود ہے ،کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ذکرواذکار میں مشغول رہے اور اسی جگہ سے اٹھ  کر گھر آکر ذکرمیں مشغول رہنے سے اس قدر ثواب نہیں ملتا بلکہ اس میں کمی آجاتی ہے ۔فقط واللہ  اعلم 

(کتاب الصلوۃ ،باب الذکر ولدعاء بعد الصلوہ ،ج:5 ،ص:227 ،ط:ادارۃ الفاروق )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100849

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں