بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد چھوڑ کر گھرمیں جماعت کرانے کا حکم / نیز بعض احادیث سے لگے شبہات کے جوابات


سوال

کسی مسجد کے قریب (خارج مسجد) کوئی حجرہ یا خالی مکان وغیرہ ہو اس جگہ میں جماعت کرانا کیسا ہے؟ آیا اس جگہ جماعت کرانا جائز ہے؟چاہے مسجد میں جماعت کھڑی ہو یا ہوگئی ہو یا مسجد میں اب تک جماعت  ادا نہ ہوئی ہو۔

بعض احادیث میں مسجد کے علاوہ نماز مطلقاً ناجائز قرار دی  گئی ہے جیسے" لاصلوٰۃ لجار المسجد  إلا في المسجد"(سنن الدارقطني) اور  "والذي نفسي بيده، لقد هممت ‌أن ‌آمر ‌بحطب يحتطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلا فيؤم الناس، ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم، والذي نفسي بيده، لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا، أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء"(البخاری)۔۔۔  جس میں مسجد کے علاوہ نماز پڑھنےوالوں  کو آگ میں جلانے کی وعید سنائی ہے۔

وہ احادیث جن میں جواز ملتا ہے جیسے«‌جعلت ‌لي ‌الأرض ‌مسجدا وطهورا»(البخاری)اور حضورﷺ جب مسجد آگئے تو جماعت ہوچکی تھی پھر گھر میں جماعت  سے نماز ادا کی اور اسی طرح اکثر صحابہ سے بھی منقول ہے ۔

2- کیا گھر میں فرض نماز کی  جماعت  کرانا جائز ہے؟ عام حالات میں  کیا حکم ہے اور بارش وغیرہ جیسے عذر کے وقت میں  اس بارے میں شرعی راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ   مردوں کے حق میں فرض نماز مسجدہی  میں  جماعت کے ساتھ ادا کرنا  سنت موٴکدہ (واجب کے قریب) ہے،  مسجد کی جماعت چھوڑ کر گھر میں جماعت کرانے سے   ترک  واجب( مسجد میں جماعت  نہ کرنے کا ) کا گناہ ہوگا ؛لہذا صورت مسئولہ میں  مسجد کے قریب  کسی حجرہ  یا مکان میں جماعت کرانا جب کہ مسجد میں جماعت کھڑی ہو یا جماعت ہونے میں کچھ  وقت باقی ہو، مسجد کی جماعت چھوڑکر حجرہ یا  مکان میں    جماعت کرانےسے   جماعت کا ثواب تو مل جائے گا ،لیکن  (ترک جماعت فی المسجدکا )   گناہ ہوگا  ، البتہ اگر کوئی شخص  کسی عذر کی وجہ  سےمسجد کی جماعت میں شریک نہ ہوسکاتو ایسی صورت میں جماعت کی ٖفضیلت حاصل کرنے کے لیے  حجرہ یا کسی مکان میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا  اکیلے  نماز پڑھنے سے بہتر ہوگا، اور ایسی صورت میں عذر کی وجہ سے ترک جماعت فی المسجد کا گناہ بھی نہ ہوگا۔

مذکورہ بالااحادیث   یعنی  «‌لا ‌صلاة ‌لجار المسجد إلا في المسجد» اور  "والذي نفسي بيده، لقد هممت ‌أن ‌آمر ‌بحطب يحتطبا---- اور اس کے علاوہ دیگر احادیث میں  ذکرکردہ وعید ات    مسجد میں ترک  جماعت  پر محمول ہیں، ان  احادیث  کا مطلب  یہ ہرگز  نہیں کہ مسجد کے علاوہ نماز پڑھنا مطلقاً ناجائز ہے اور جس نے مسجد  میں نماز نہیں پڑھی اس کی نمازبالکل  ہوتی   نہیں جیسے سائل نے سمجھا ہے (امداد الاحکام، اعلاء السنن)

 نیز"جعلت ‌لي ‌الأرض ‌مسجدا وطهورا "   حدیث کا مطلب یہ ہے  کہ  پچھلی امتوں میں  عبادت کے لیے مقررہ مقامات ہی میں نماز پڑھنا ضروری تھا ،ان مقامات کے علاوہ نماز پڑھنا جائز نہیں تھا،  اس  امت کی خصوصیت یہ  ہے کہ اس کے لیے پوری زمین  سجدہ گاہ بنادی گئی ہے، مسلمان  جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے نماز پڑھ سکتا ہے جبکہ  پہلی امتوں میں یہ سہولت نہ تھی ،لہذا اس حدیث  میں   آپ ﷺ کی امت کی خصوصیت   ذکر کی گئی ہے کہ مسجد ( خاص مقام) کے علاوہ اگر نماز کا وقت آجائے تو کہیں بھی نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن   اس حدیث کا یہ  مطلب نہیں کہ فرض نماز  میں   مسجد  چھوڑ کر کہیں بھی   پڑھنے میں  مسجداور غیر مسجد دونوں برابر ہیں،  بلکہ جیساکہ پہلے گزرا کہ فرض نماز مسجد ہی میں    جماعت کے ساتھ ادا کرنا  سنت موٴکدہ ( واجب کے قریب) ہے،  تاہم مسجد کے علاوہ گھرمیں یاحجرہ میں فرض نماز  کی  جماعت کرانے سے جماعت کا ثواب تو مل جائے گا لیکن ترک مسجد کا گناہ ہوگا،  ہاں   سنن، نوافل   مسجد کے علاوہ  پڑھ سکتے ہیں،  بلکہ سنن ونوافل  کی   مسجد میں پڑھنے سے گھر میں پڑھنے کی فضیلت زیادہ ہے   ۔(الکوکب الدری، مرقاۃ المفاتیح)

 نیز”   آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں تشریف لائے تو جماعت ہوچکی تھی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوی میں دوسری جماعت نہیں کروائی، بلکہ گھر تشریف لے گئے اور اہلِ خانہ کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی“ (المعجم الاوسط للطبرانی)  اس حدیث  کامطلب یہ ہے کہ کسی عذر سےمسجدکی جماعت رہ جائےتوگھرجاکر اہلِ خانہ کو جمع کرکے جماعت سے نماز اداکرلی جائے،مسجد میں دوسری جماعت نہ کی جائے، اس حدیث   سے مسجد  میں  جماعت ثانیہ  کے عدم جواز   کاثبوت  ہوتاہے ۔

خلاصہ یہ کہ مسجد کے علاوہ نماز پڑھنا جائز ہے  تاہم قصداً مسجد چھوڑکر فرض نماز مسجد کے علاوہ پڑھنے سے ترک مسجد کا گناہ ہوگا باقی نماز   پڑھنا جائز ہے، اس بارے  میں سائل کا یہ کہنا کہ حدیث سے مطلقاً عدم جواز ملتا ہے، درست نہیں ،بلکہ احادیث کا مطلب وہی ہے جو اوپر  ذکر ہوا۔

2- جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ قریب بواجب ہے ، اس لیے    فرض نماز مسجد ہی میں    جماعت کے ساتھ ادا کرنا  سنت موٴکدہ (واجب کے قریب) ہے   گھر میں جماعت کرنے سے جماعت کا ثواب تو مل جا ئے گا ، لیکن ترک  واجب( ترک جماعت فی المسجد) کا گناہ ہوگا اس  لیے مردوں کے لیے حکم یہی ہے کہ فرض نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ ادا کریں    تاہم اگر کوئی معتبر عذر (مثلاً: مرض، تیز بارش وغیرہ) ہو تو ایسی صورت میں گھر میں پڑھنے کی گنجائش ہے  ۔

إعلاء السنن میں ہے:

" أبواب الإمامة باب وجوب إتيان الجماعة في المسجد عند عدم العلة و عدم كونها شرطا لصحة الصلاة.

١١٥٧ - عن أنس بن مالك رضى الله عنه أن النبي ﷺ قال: «لو أن رجلا دعا الناس إلى عرق أو مرماتين لأجابوه، وهم يدعون إلى هذه الصلاة في جماعة فلا يأتونها ، لقد هممت أن أمر رجلا أن يصلي بالناس في جماعة ثم انصرف إلى قوم سمعوا النداء فلم يجيبوا فأضرمها عليهم نارا إنه لا يتخلف عنها إلا منافق». رواه الطبراني في الأوسط، ورجاله موثقون، كذا في مجمع الزوائد (١٥٩:١٠ ) . باب وجوب إتيان الجماعة في المسجد عند عدم العلة، وعدم كونها شرطا لصحة الصلاة .

قوله: " عن أنس" إلخ . قلت : دلالته على الجزء الأول ظاهرة حيث بولغ في تهديد من تخلف عنها ، وحكم عليه بالنفاق، ومثل هذا التهديد لا يكون إلا في ترك الواجب ولا يخفى أن وجوب الجماعة لو كان مجردا عن حضور المسجد لما هم رسول الله ﷺ بإضرام البيوت على المتخلفين لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بيوتهم،فثبت أن إتيان المسجد أيضا واجب كوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بيته أتى بواجب، وترك واجبا آخر. قال في التنوير والجماعة سنة مؤكدة للرجال، وأقلها اثنان، وقيل: واجبة وعليه العامة ا هـ . وفي الدر: أي عامة مشائخنا، وبه جزم في التحفة وغيرها ، قال في البحر وهو الراجح عند أهل المذهب ا هـ (١ : ٥٧٦ مع الشامية) . هذا قول أصحابنا في وجوب الجماعة، وأما ما يدل على وجوبها في المسجد، فلأنهم اتفقوا على أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعيد، نحو قوله : "الجفا كل الجفا، والكفر والنفاق من سمع منادي الله ينادى إلى الصلاة، فلا يجيبه ، وقوله : " من سمع النداء فلم يجب ، فلا صلاة له إلا من عذر" ، ونحوهما----قلت: دل كلامه على أن وجوب إتيان مسجده كوجوب الجماعة، لأن من شرط التعارض مساواة الطرفين، ولهذا قد تترك الجماعة المراعاة حق المسجد. قال في رد المحتار عن الخانية: وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن، فإنه يذهب إليه ويؤذن فيه، ويصلى وإن كان واحدا ، لأن المسجد منزله حقا عليه، فيؤدى حقه ا هـ (١:٠٧٥)۔۔۔۔وسئل الحلواني عمن يجمع بأهله أحيانا هل ينال ثواب الجماعة أولا؟ قال: لا ! ويكون بدعة، ومكروها اهـ (٣٤٦:١) . قلت: وهذا صريح في أن وجوب الجماعة إنما يتأدى بجماعة المسجد لا بجماعة البيوت ونحوها 

١١٦٤ - عن ابن عباس رضى الله عنهما قال : قال رسول الله ﷺ : «من سمع النداء فلم يجب، فلا صلاة له إلا من عذر». رواه القاسم بن أصبغ في کتابه وابن ماجة وابن حبان في صحيحه، والحاكم وقال : صحيح على شرطهما ( الترغيب " ٧٠:١) .۔۔۔۔۔قوله : " عن ابن عباس برواية القاسم بن إصبغ إلخ . قلت : ظاهره عدم صحة الصلاة بدون الإجابة، وإليه ذهبت الظاهرية وهو محمول عندنا على عدم القبول بدليل ما يأتي عن على "لا تقبل صلاة جار المسجد إلا في المسجد وبدليل ما يأتي من قوله : صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة وهو يفيد جواز صلاة المنفرد أيضا ،ودلالته على وجوب الجماعة ظاهرة، ولم نقل بالافتراض، فإنه يتوقف عندنا على كون الدليل قطعي الثبوت، والدلالة، والأمر ليس كذلك، فإن الحديث لم يتواتر."

(أبواب الإمامة،  باب وجوب إتيان الجماعة في المسجد عند عدم العلة و عدم كونها شرطا لصحة الصلاة، ج:4، ص:186---194، ط:ادارة القرآن)

امداد الاحکام میں ہے:

” جماعت کے سنت مؤکدہ قریب من الواجب ہونے کا مطلب اور یہ کہ جماعت کن لوگوں پر واجب ہے، اس کی مختلف صورتوں کے متعلق استفتاء

 سوال (۴۶)یہ جو فقہاء نے لکھا ہے کہ جماعت پنجگانہ سنت مؤکدہ قریب بواجب ہے،یہ خاص مسجد محلہ والوں پر ہے یا عام ہے ، مثلاً اہلِ محلہ نے گھر میں جماعت سے نماز پڑھ لی تو آیا اُن پر سے حُضور مسجد محلہ کی جماعت کا سقوط ہو جائے گا یا نہیں، ایسا ہی کوئی باہر جانے والا ہے اپنی مسجد محلہ میں قبل جماعت فقط تین چار آدمیوں سے جماعت کرکے باہر چلا جاوے تو بھی جماعت ساقط ہو جائے گی یا نہ ؟ 

(۲) سوائےمسجد محلہ کے کوئی سفر میں ہو، یا اگر شرعی مسافر نہ ہو لیکن اپنے وطن کے سوا اور کہیں ہو تو بھی اس پر حُضور مسجد کی جماعت کا لازم ہے یا نہیں، دوسرے یہ ہے کہ جو وعید تاریک جماعت پر وارد ہوا ہے وہ مطلقاً جماعت کے تارک کے ہر یا مسجد محلہ کی جماعت کے تارک پر؟ اکثر کتب میں اس کی تفصیل و تفریق نہیں لکھی ہے، اس لئے بعض اس کے قائل ہونے لگے ہیں کہ جماعت مؤکد عام ہے ، اس کی تحقیق و تفصیل سے آگاہی بخشے گا ؟

 الجواب ، حنفیہ کے نزدیک صلوات مکتوبہ کی جماعت مسجد محلہ میں سنت مؤکدہ بلکہ واجب ہے، گھر میں جماعت کرنے سے جماعت کا ثواب مل جاویگا ، لیکن ترک سنت مؤکدہ اور ترک واجب کا گناہ ہوگا قال في التنوير والجماعة سنة مؤكدة للرجال واقلها اثنان وقیل واجبة وعليه العامة اه قال في الدر عن البحر وهو أي الوجوب الراجح عند اهل المذهب اه (ص ۵۷۶ ج ۱) اس سے تو جماعت کا وجوب معلوم ہوا ، رہی اس کی دلیل کہ مسجد میں جماعت کرنا واجب ہے، سو حنفیہ سب اس پر متفق ہیں کہ اجابت اذان واجب ہے، ہاں اس  میں اختلاف ہے کہ اجابت باللسان واجب ہے یا بالقدم شر نبلالی نے نور الایضاح و مراقی الفلاح میں دونوں کو واجب کہا ہے (ص١١١) اور قاضی خان وحلوانی و غیره نے صرف اجابت بالقدم کو واجب کہا ہے، اور اجابت باللسان کو مستحب کہا ہے ، قال في البحر قال قاضی خان إجابة المؤذن فضيلة وإن تركها لا يأثم وأما قوله عليه السلام من لم يجب الاذان فلا صلوة له فمعناه الاجابة بالقدم لا باللسان فقط اه وقال الحلواني الإجابة بالقدم لا باللسان حتى لو أجاب باللسان ولم يمش إلى المسجد لا يكون مجيبا ولو كان في المسجد حين سمع الأذان ليس عليه الإجابة اه (ص ٣٥٩ ج١)اور ظاہر ہے کہ ا جابت بالقدم سے مراد یہی ہے کہ مسجد جا کر جماعت سے نماز پڑھےوفی رد المحتار فيما إذا فاتته الجماعة في مسجد حية وذكر القدورى يجمع بأهله ويصلى بهم یعني وينال ثواب الجماعة كذافى الفتح وذكر الشرنبلالي بإن هذا ينافي وجوب الجماعة وأجاب رح بان الوجوب عند عدم الحرج وفي تتبعها في الأماكن القاصية حرج مع ما في مجاوزة مسجد حية من مخالفة قوله صلى الله عليه وسلم لا صلاة لجار المسجد الافى المسجد اه (ص  ۵۸۰ ج١)

 اس سے صاف معلوم ہوا کہ گھر میں جماعت کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ مسجد محلہ میں جماعت نہ مل سکی ہو، اور اگر مسجد محلہ میں جماعت ابھی نہیں ہوئی تو گھر میں جماعت کرنا جائز نہیں بحر میں ہے وسئل الحلواني عمن يجمع بأهله أحيانا هل ينال الجماعة اولا قال لا ويكون بدعة ومكروها اه(ص ۳۴۶ ج 1) اس میں صاف ہے تصریح ہے کہ گھر میں جماعت کرنا بدعت ومکروہ ہے ،یعنی جب مسجد محلہ میں جماعت ملنے کی امید ہو ، اور اگر وہاں جماعت ہوچکی تو پھر گھر میں جماعت کرنے سے جماعت کا ثواب مل جائے گا لیکن ترک جماعت فی المسجد کا گناہ بھی ہوگا ،اگر اس نے قصدا کسل وغیرہ کی وجہ سے دیر کی ہو ، اور اگر عذر شرعی کی وجہ سے دیر ہوگئی تو گناہ نہ ہوگا پس صاحب قنیه نے جو مطلقا لکھا ہےإختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح انها كإقامتها في المسجد إلا في الفضيلة وهو ظاهر مذهب الشافعي كذا في حاشية البحر اهیہ صحیح نہیں کیونکہ اصحاب مذہب کی تصریحات اس کے خلاف ہیں اور صاحب قنیه کی نقل ضعیف ہے اور یہ قول احادیث کے بھی خلاف ہے عن ابن مسعود رضی اللہ عنه قال من سره أن يلقى الله غدا مسلماً فليحافظ على هؤلاء الصلوٰت الخمس حيث بنادي بهن فإن الله شرع لنبيه صلي الله عليه وسلم سنن الهدى فإنهن من سنن الهدى وإني لا أحسب منكم أحداً إلا له مسجد في بيته يصلي فيه فلو صليتم في بيوتكم وتركتم مساجدكم لتركتم سنة نبيكم ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم الحديث أخرجه النسائي واللفظ له ومسلم وأبو داود ولفظ مسلم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم علّمنا سنن الهدى وإن من سنن الهدى الصلوة في المسجد الذي يؤذن فيه اه‍ ،اس میں صاف مسجد میں حاضر ہوکر نماز ادا کرنے کو سنت مؤکدہ اور گھر میں نماز پڑھنے کو ضلالت کہا ہے 

وعن ابن عباس رضي الله عنه مرفوعاً من سمع النداء ولم يجب فلا صلوة له إلا من عذر صححه الحاكم وابن حبان ،وعن علي رضي الله عنه مرفوعاً لاصلوة لجار المسجد إلا في المسجد رواه ابن حبان وسنده حسن والتفصيل في إعلاء السنن ."

(کتاب الصلاۃ، ج:1، ص:534، ط:مکتبه دارالعلوم کراچی)

الكوكب الدري میں ہے:

[وجعلت لي الأرض مسجدًا (2)] وكان الأمم الأولون لا يمكنهم الصلاة إلا في مساجد معدة للصلاة.

قال الإمام العلامة المحدث الشيخ محمد زكريا الكاندهلويؒ في حاشیته:

   قال الحافظ: أي موضع سجود لا يختص السجود منها بموضع دون غيره ويمكن أن يكون مجازًا عن المكان المبني للصلاة وهو من مجاز التشبيه لأنه لما جازت الصلاة في جميعها كانت كالمسجد في ذلك، قال ابن التيمي قيل المراد جعلت لي الأرض مسجدًا وطهورًا وجعلت لغيري مسجدًا ولم تجعل له طهورًا لأن عيسى يسيح في الأرض ويصلي حيث أدركته الصلاة كذا قال، وسبقه إلى ذلك الدودي، وقيل إنما أبيح لهم فيما يتيقنون طهارته بخلاف هذه الأمة فأبيح لها في جميع الأرض إلا فيما تيقنوا نجاسته والأظهر ما قاله الخطابي وهو أن من قبله إنما أبيحت لهم الصلوات في أماكن مخصوصة كالبيع والصوامع ويؤيده رواية عمرو بن شعيب بلفظ وكان من قبلي إنما كانوا يصلون في كنائسهم وهذا نص في موضع النزاع فثبت الخصوصية ويؤيده ما أخرجه البزار من حديث ابن عباس نحو حديث الباب وفيه ولم يكن من الأنبياء أحد يصلي حتى يبلغ محرابه، انتهى."

(‌‌أبواب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج:2،  ص:404، ط:ندوة العلماء الهند)

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

" تعميم بعد تخصيص أو عطف تفسير، والمسجد لغة محل السجود، وشرعا: المحل الموقوف للصلاة فيه، وقيل: الأرض كلها لخبر: «جعلت لي الأرض مسجدا» . ورد: بأن المراد بالمسجد فيه، ما تجوز فيه الصلاة ; احترازا من بقية الأنام،فإنهم كانوا لا تجوز لهم الصلاة إلا في بيعهم وكنائسهم، كما جاء في رواية، وفي أخرى عند البزار: ولم يكن أحد من الأنبياء يصلي حتى يبلغ محرابه."

(کتاب الصلاۃ،  باب المساجد ومواضع الصلاة، ج:2، ص:581، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

فیض القدیر  میں ہے:

3594 - (جعلت لي الأرض مسجدا)أي كل جزء منها يصلح أن يكون مكانا للسجود أو يصلح أن يبنى فيه مكانا للصلاة ولا يرد عليه أن الصلاة في الأرض المتنجسة لا تصح لأن التنجس وصف طارئ والاعتبار بما قبله."

(‌‌حرف الجيم، ج:3، ص:349، ط:المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

المعجم الأوسط للطبراني  میں ہے:

4601 - حدثنا عبدان بن أحمد قال: نا هشام بن خالد الدمشقي قال: نا الوليد بن مسلم قال: أخبرني أبو مطيع معاوية بن يحيى، عن خالد الحذاء، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «‌أقبل ‌من ‌نواحي ‌المدينة ‌يريد الصلاة، فوجد الناس قد صلوا، فمال إلى منزله، فجمع أهله، فصلى بهم"

(‌‌من اسمه: عبدان، ج:5، ص:35، ط:دار الحرمين - القاهرة)

المصنف - ابن أبي شيبة  میں ہے: 

7111 - حدثنا وكيع، عن أبي هلال، عن كثير، عن الحسن، قال: «كان أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، ‌إذا ‌دخلوا ‌المسجد ‌وقد ‌صلي ‌فيه صلوا فرادى."

(‌‌من قال: يصلون فرادى، ولا يجمعون، ج:2، ص:113، ط:دار التاج - لبنان)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے :

"رجل فاتته الصلوۃ بالجماعة هل يصلي في المسجد وحده او يصلي في البيت مع الجماعة؟

الجواب:ان أمكن الصلوة بالجماعة في البيت فهو أولي وأصوب ،كيف هو مروي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم كمانقله في رد المحتار."

(کتاب الصلوۃ ،باب الامامۃ والجماعۃ ،ج:3،ص:55،ط:دار الاشاعت) 

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607102513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں