بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مسجد میں مدرسہ قائم کرکے بچوں کو پڑھانا جائز ہے ؟


سوال

1۔مسجد اور مدرسہ برابربرابر ہیں، مسجد کی انتظامیہ اور مدرسہ کی انتظامیہ  الگ الگ ہیں،مدرسہ کی کلاسیں مسجد میں تقریباً دس گھنٹے  لگتی ہیں،جو بجلی مدرسہ استعمال کرتاہے اس کابل مسجد ادا کرے گی یا مدرسہ شرعی حکم کیا ہے؟

2۔مسجد میں مقامی طلبہ کی کلاسیں لگتی ہیں ان سے فیس لی جاتی ہے،ان طلبہ کی کلاس مسجد میں لگانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جب مسجداورمدرسہ  کے الگ الگ  انتظامیہ ہے  اورہرایک کافنڈ بھی الگ الگ  مقررہے  تو ایسی صورت  میں ایک کا پیسہ دوسرے میں خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا؛لہذامسجد میں جو دس گھنٹے کلاسیں لگتی ہے اوربجلی استعمال  ہوتی ہے ،اس کا بل ادا کرنا مدرسہ والوں پر لازم ہے ۔

مسجد  میں مستقل بنیادوں پر مدرسہ یا مکتب قائم کرنا شرعاً  جائز نہیں،  تاہم  جگہ کی تنگی کے باعث مدرسہ کے اساتذہ عارضی طور پر مسجد میں  تعلیم دیں ،مسجد  کے آداب کی مکمل رعایت رکھیں اور طلبہ سے فیس نہ لیں تو اس کی گنجائش ہےاورجب مسجدسے باہر مدرسہ کے پاس جگہ کا انتظام ہوجائے تو کلاس کو مسجدسے باہر لےجائیں، لیکن مسجد میں تعلیم دینے کے عوض فیس نہ لی جائے۔

فتاویشامی میں ہے:

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

            (کتاب الوقف/ج:4/ص:360/ط:سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"وقد تقرر في فتاوى خوارزم۔۔۔ أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف.وكذا إذا اختلف الواقف لا الجهة يتبع شرط الواقف وقد علم بهذا التقرير إعمال الغلتين إحياء للوقف ورعاية لشرط الواقف هذا هو الحاصل من الفتاوى."

            (کتاب الوقف،وقف المسجد/ج:5/ص:234/ ط: دار الکتاب)

فتح القديرميں ہے:

"ومعلم الصبيان القرآن كالكاتب إن كان لأجر لا وحسبة لا بأس به. ومنهم من فضل هذا إن كان لضرورة الحر وغيره لا يكره وإلا فيكره، وسكت عن كونه بأجر أو غيره، وينبغي حمله على ما إذا كان حسبة، فأما إن كان بأجر فلا شك في الكراهة، وعلى هذا فإذا كان حسبة ولا ضرورة يكره لأن ‌نفس ‌التعليم ومراجعة الأطفال لا تخلو عما يكره في المسجد، والجلوس في المسجد بغير صلاة جائز لا للمصيبة."

(كتاب الصلاة،فصل ويكره استقبال القبلة بالفرج في الخلاء،ج:1،ص:422،ط:دار الفكرلبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں