بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشورہ کن لوگوں سے نہ کریں؟


سوال

اسلام میں کن لوگوں سے مشورہ لینا جائز نہیں ہے؟

جواب

واضح رہےکہ شریعت مطہرہ میں مشورہ کی بڑی اہمیت ہے،اور ہر اہم  کام کےشروع کرنےسےپہلےباشعوراورنیک افرادسےمشورہ کرنا بلاشبہ فائدہ مند اورنفع بخش ثابت ہوتا ہے،قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں  ہراہم کام شروع کرنےسےپہلےمشورہ کرنےکا حکم دیا گیا ہے،اگرچہ یہ حکم استحبابی ہے تاہم یہ ظاہر اور واضح ہے کہ مشورہ سے جو   بات طے ہوجائے تو اس میں خیروبرکت ہوتی ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

(وَشَاوِرْهُم فِی الْاَمْر) (سورہ آل عمران، آیت : 159)

ترجمہ :’’ اور ان سے خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے۔‘‘ (ازبیان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ﴾ [الشوریٰ، جزء آیت: ۳۸]

’’اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے۔‘‘

 ارشاد  نبوی ہے:

"ماخاب من استخار، و ماندم من استشار."

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ،كتاب الرقاق، باب التوكل والصبر، ج:8، ص:3326، ط: دار الفكر، بيروت)

’’یعنی جس نے استخارہ کیا وہ  نامراد نہیں ہوگا، اور جس نے مشورہ کیا وہ پشیمان نہیں ہوگا۔‘‘

مشورے کے حوالے سے ہدایت یہ ہے کہ مخلص، امانت دار اور اہلِ تجربہ سے مشورہ کرنا چاہیے، جو مخلصانہ مشورہ دینے کے ساتھ امانت کی اہمیت سمجھتے ہوئے دوسرے کا راز رکھ سکیں۔ لہٰذا ہر کس و ناکس سے مشورہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اس کی بنیادی  وجہ  حدیثِ مبارک کے مطابق حسد کا پیدا ہوجاناہے، نیز بے وقوف یا غیر امین سے مشورہ کرنے میں حاسدین تک خبر پہنچنے میں بھی نقصان اور حسد کا اندیشہ رہتاہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں