بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشروط طلاق کے بعد ایک طلاق بائن دینا


سوال

میرے شوہر نے مجھے ہفتہ والے دن 9 اکتوبرکو غصے کی حالت میں کہاکہ(1) اگر آپ نے میری بات کسی کو بتائی(جو ہم دونوں سے متعلق ہو) (2)یا مجھ سے کچھ چھپا یا(جو مجھ سے متعلق ہو برائی ہو یا اچھائی) (3) یا مجھ سے جھوٹ بولا (4)یا میرا کہنا نہیں مانا تو آپ کو ایک طلاق پھر اگر ان میں سے کوئی کام دوبارہ کیا تو دوسری طلاق او ر اگر تیسری بار کیا تو تیسری طلاق،پھر جب تھوڑی دیر بعد ان کاغصہ اترگیا تو کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتاہوں،اب کوئی شرط نہیں ،پھر اگلے دن میں ان کی مرضی کے بغیر خالہ کے گھر چلی گئی،وہاں سے واپسی کے بعدانہوں نے صلح کرنے کے لیے(تاکہ طلاق واقع نہ ہو) مجھے ایک طلاق بائن دی کہ اس کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرلیں گے،مگر اگلے دن مجھ سے دو باتیں اور پوری ہوگئیں  کہ1۔ میں نے اپنے گھر والوں کو ان کی باتیں بتائی اور2۔ اس سے اپنے گھر والوں کی باتیں چھپائی جو گھر والوں نے اس کے متعلق کہی تھیں،اب پوچھنا یہ ہےکہ:

1:کیا مجھے طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہے؟

2:میں نے ان سے اپنے گھر والوں کی جو باتیں چھپائی تھی اگروہ میں ان کو بتادوں تو خلاصی ممکن ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے جب پہلے ایک طلاق بائن دی تھی تو اس سے سائلہ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی ، پھر اس سے اگلے دن جب سائلہ نے شوہر کی باتیں اپنے گھر والوں کو بتائیں تو شرط پائی جانے کی وجہ سے دوسری طلاق واقع ہوگئی تھی، اس کے بعد جب گھروالوں کی باتیں شوہرسے چھپائیں تو   دوسری  شرط  پائی جانے کی وجہ سےتیسری طلاق بھی واقع ہوگئی تھی،اس طرح سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور وہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہے،اب رجوع جائز نہیں، اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا،سائلہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہواگر حمل ہوتو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا ‌أضافه ‌إلى ‌الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق باالشرط ج:1، ص:420، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) 

وفی الحاشیة:وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة."

(كتاب الطلاق، باب الکنایات  ج:3، ص: 306، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن ‌كان ‌الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ج:1، ص:473، ط:رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں