بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اکیلے کرایہ کے گھر میں رہنے والی معتدہ کا حکم


سوال

1۔ میری بہن شادی کے پہلے پانچ سال سسرال میں رہی،  وہاں ان کی ساس اور دیور کی فیملی ساتھ رہتی تھی،    گزشتہ تین سال سے کرائے کے گھر میں رہ رہی  ہیں،  6نومبر 2023 کو میری بہن کے شوہر بائیک حادثے کے سبب انتقال کر گئے، معلوم یہ کرنا ہے کہ بیوہ عدت اپنے سسرال میں گزارے گی  یا کرائے کے گھر میں،  دونوں گھروں میں ان کا کوئی محرم نہیں ہے،  سسرال میں ان کے رہنے کے اسباب بھی میسر نہیں ہیں،  کیا بیوہ اپنی عدت اپنے والدین کے گھر میں گزار سکتی ہے؟ والدین حیات ہیں،  عدت  کے بعد مسلسل رہائش بھی والدین کے گھر میں متوقع ہے، واضح رہے کہ بیوہ اور بچے مرحوم کے گھر والوں کے رویوں سے خائف ہیں۔ 

2۔ میری بہن ایک اسکول میں ٹیچر ہے،  گھر کے اخراجات اور بچوں کی اسکول کی فیس وغیرہ کے لیے عدت کے دوران با پردہ  اسکول جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

1۔ اگر میاں بیوی کرائے کے مکان میں رہتے تھے پھر شوہر کا انتقال ہوجائے تو اصل حکم یہی ہے کہ عورت عدت اسی کرایہ کے گھر میں  گذارے گی، البتہ اگر مکان کرائے کا ہو اور معتدہ  کرایہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو  تو معتدہ  وہاں سے منتقل ہوسکتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر معتدہ  مکان کا کرایہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو یا اس کے  ساتھ کرایہ کے گھر   میں کوئی محرم نہ ہو تو وہ  اپنی والدین کے گھر  میں  عدت گذار سکتی ہے۔

2۔ آپ کی بہن  اور ان  کے بچوں کے اخراجات کے لیے دوران عدت کوئی اور انتظام ممکن نہ ہو تو  ان کے لیے دن میں پڑھانے کے لیے جانے کی شرعاً گنجائش ہے ۔

ہندیہ میں ہے:

"إن اضطرت إلی الخروج من بیتہا بأن ․․․ کان المنزل بأجرة ولا تجد ما توٴدیہ في أجرتہ في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلک أن تنتقل․"

(کتاب النکاح،  باب العدة، ج:1، ص:587، ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه،"

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط:سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا.

والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري - رحمه الله تعالى - أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود - رضي الله عنه - فقلن إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفي الجوهرة يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ.فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها الخروج نهارًا كما فهمه المحقق."

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل فى الاحداد، ج:4، ص:166، ط:دارالكتاب الاسلامى)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504102315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں