بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشروم اور جھینگا کھانے کا حکم


سوال

کیا مشروم اور جھینگا کھانا حلال ہے؟

جواب

’’مشروم‘‘ جسے کھمبی بھی کہتے ہیں نباتات میں سے ہے اور  نباتات  میں مضر صحت یا کوئی زہریلی چیز نہ ہو  تو اس  کا استعمال کرنا حلال ہے، اس لیے مشروم کھانا حلال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک نعمت فرمایا ہے۔
باقی جھینگےکی حلت اورحرمت کی بنیاد اس بات پرہےکہ یہ مچھلی ہےیا نہیں،  جولوگ اس کو مچھلی قراردیتے ہیں وہ اس کی حلت کے قائل ہیں اورجولوگ اس کو مچھلی قرارنہیں دیتے وہ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ہمارے نزدیک جھینگا مچھلی کی قسم ہے اور اس کا  کھاناحلال ہے۔
باقی تفصیلات جاننے  کے لیے "جواھر الفتاوی" جلد 3  ،( مولفہ :مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب ) ملاحظہ فرمائیں۔

مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " العجوة من الجنة وفيها شفاء من السم، والكمأة من المن وماؤها شفاء للعين".

ترجمہ :" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " عجوہ (جو کھجور کی سب سے اچھی قسم ہے ) جنت کی (کھجور ) ہے اور اس میں زہر  سے شفا ہے ،اور کھنبی "منّ" (کی قسم ) سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے "۔

شرح رياض الصالحين میں ہے:

"عن سعيد بن زيد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‌الكمأة ‌من ‌المن ‌وماؤها ‌شفاء ‌للعين الكمأة هي التي تعرف عند الناس بالفجع تنبت من كثرة الأمطار ولاسيما الأمطار الموسمية وهي معروفة لذيذة الطعم تنبت على الأرض وإذا كبرت يأخذها الناس بدون كلفة وبدون مشقة ولهذا قال النبي صلى الله عليه وسلم إنها من المن أي مما من الله به على عباده بيسر وسهولة وماؤها شفاء للعين يعني أن الماء الذي يستخرج منها إذا مرضت العين بسبب الرطوبة فإن هذه تشفيه بإذن الله عز وجل لأن ماءها ناشف وإن كان سائلا ينشف العين ويزيل عنها الرطوبات ولهذا قال وماؤها شفاء للعين يعني ليس من كل مرض بل من الأمراض التي أسبابها الرطوبة فإنها تشفى بإذن الله عز وجل ولكن كيف يستخرج ماؤها قيل إنها تصهر على النار ثم تعصر لأنها إذا صهرت على النار لانت ثم تعصر وقيل إنها تقطع قطعا صغيرة ثم تعصر عصرا شديدا فيخرج منها الماء ولكنه قليل."

(‌‌كتاب الأمور المنهي عنها،‌‌باب المنثورات والملح، ج:6،ص:710، دار الوطن للنشر، الرياض)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں