بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشہور مقولہ عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں، ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں کی تحقیق


سوال

 عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں ، ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں!

کیا  یہ امام زین العابدین  رحمہ اللہ کا قول ہے؟  رہنمائی فرمائیں۔

جواب

مذکورہ جملہ  حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کی طرف نسبت کے ساتھ   ہمیں کہیں نہیں مل  سکا، البتہ یہی الفاظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقولہ کے طور پر  مشهور شيعه تصنيف "نهج البلاغة"میں مذکور  ہیں : 

"لاَ غِنَى كَالْعَقْلِ، وَلاَ فَقْرَ كَالْجَهْلِ، وَلاَ مِيرَاثَ كَالاْدَبِ، وَلاَ ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ .

"یعنی عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں .ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں ۔"

(نهج البلاغة، (4/ 14) رقم القول (54)، ط/ دار المعرفة للطباعة والنشر بيروت لبنان)

البتہ ’’نہج البلاغه‘‘   کے متعلق جاننا چاہیے کہ یہ چوتھی صدی ہجری کے   شیعہ  عالم علی بن حسین بن موسی (جو علامہ شریف مرتضی کے  نام سے مشہور تھے)  نے مرتب کی ہے، اور بعض اہل علم کے نزدیک ان کے بھائی  محمد بن حسین بن موسی ( جو سید شریف رضی کے نام سے مشہور تھے)  کی مرتب کردہ ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ(المتوفیٰ: 748ھ) لکھتے  ہیں:

"العَلاَّمَةُ الشَّرِيْفُ المُرْتَضَى، نَقِيْبُ العَلَوِيَّة، أَبُو طَالِبٍ؛ عَلِيُّ بنُ حُسَيْنِ بن مُوْسَى، القُرَشِيُّ العَلَوِيُّ الحُسَيْنِيُّ المُوْسَوِيُّ البَغْدَادِيُّ، مِنْ وَلد مُوْسَى الكَاظِم ... قُلْتُ: هُوَ جَامعُ كِتَابِ "نَهْجِ البلاغَة"... وَقِيْلَ: بَلْ جَمْعُ أَخِيْهِ الشَّرِيْف الرَّضي. "

(سير الأعلام النبلاء (17/ 588 و589) رقم الترجمة (394)، ط/ مؤسسة الرسالة، 1413ه)

نهج البلاغه میں عربی ادبی رنگ میں بہت سے خطبات، مکتوبات، حکمت اور نصائح والے اقوال جمع کیے گئے ہیں، اور انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب کیا گیاہے، اہل تشیع کے نزدیک یہ کتاب مذہبی حیثیت کی حامل ہے۔ لیکن  اہلِ سنت کے نزدیک اس کتاب کو استنادی  حیثیت  حاصل نہیں ،  اس کا اسنادی ثبوت نہیں، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کی طرف اس کی نسبت  بھی درست نہیں۔  علامہ ذہبی رحمہ اللہ (المتوفیٰ: 748ھ) لکھتے ہیں: 

"كتاب ’’نهج البلاغة‘‘ المنسوبة ألفاظه إلى الامام علي رضي الله عنه، ولا أسانيد لذلك، وبعضها باطل، وفيه حق، ولكن فيه موضوعات حاشا الامام من النطق بها".

" يعني كه یہ کتاب نہج البلاغہ  حضرت علی  کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب ہے، لیکن اس کی کوئی سند نہیں ہے، اور اس میں بعض باتیں باطل ہیں،  اگرچہ اس میں کچھ حق بھی ہے، لیکن اس میں ایسی من گھڑت چیزیں بھی ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا ہو۔"

(سير الأعلام النبلاء (17/ 589) رقم الترجمة (394)، ط/ مؤسسة الرسالة، 1413ه) 

اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۵۲ھ ) تحریر فرماتے ہیں :

"ومن طالع نهج البلاغة جزم بأنه مكذوب على أمير المؤمنين علي رضي الله عنه، ففيه السب الصراح والحط على السيدين أبي بكر وعمر رضي الله عنهما،وفيه من التناقض والأشياء الركيكة والعبارات التي من له معرفة بنفس القرشيين الصحابة وبنفس غيرهم ممن بعدهم من المتأخرين جزم بأن الكتاب أكثره باطل. انتهى. وقال ابن حزم: كان من كبار المعتزلة الدعاة ، وكان إماميا".

"یعنی جو شخص نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے تو وہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر جھوٹ گھڑا گیا ہے، اس لیے کہ اس میں شیخین کریمین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو صریح گالیاں دی گئی ہیں  اور  ان کی شان میں گستاخی ہے، اور اس میں ایسے تناقض اور گھٹیا چیزیں ہیں کہ جو  شخص صحابہ کرام احوال سے واقف ہو  تو وہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب میں اکثر چیزیں باطل ہیں، اور ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس کے مصنف معتزلہ کے بڑے داعیوں میں سے تھے اور یہ امامیہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔"

(لسان الميزان،حرف العين، من اسمه علي، (5/ 529) رقم الترجمة (5375)، ط/ دار البشائر الإسلامية 2002 م)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501101628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں