بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشکوک مال میراث کو وصول کرنے کا حکم


سوال

اگر کسی کو میراث میں ایسا مال ملے جس کا مکمل طور پر حلال طریقے سے کمایا جانا مشکوک ہو،تو کیا اسے لینا جائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر اس مال میں کسی صاحبِ حق کے حق کی وجہ سے شک پیدا ہورہا ہے اور صاحبِ حق معلوم بھی ہو تو اس کو اس کا مال لوٹانا ضروری ہے،اور اگر صاحبِ حق معلوم نہ ہو ،لیکن کسی معین اور خاص چیز کے بارے میں یہ یقین ہو کہ یہ چیز غصب کی ہے یا رشوت کی ہے وغیرہ وغیرہ تو اس چیز کو اصل مالک کو ثواب پہنچانے کی نیت سے صدقہ کرنا ضروری ہے،اور اگرنہ صاحبِ حق معلوم ہو نہ ہی کوئی خاص چیز معلوم ہوتاہم اتنا معلوم ہو کہ مورث(جس کی وراثت جاری ہورہی ہے) اس کی کمائی میں حلال وحرام مال مخلوط تھا،تو اس صورت میں وارث کے لیے اس مال کولینا اور استعمال کرنا شرعاًدرست تو ہے، البتہ احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے اور پورا کا پورا مال صدقہ کردیاجائے۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"‌مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل ولكن لا يعلم الطالب بعينه ليرد عليه حل له الإرث والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ وكذا لا يحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه، لما في البزازية أخذه مورثه رشوة أو ظلما، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه، وإلا فله أخذه حكما أما في الديانة فيتصدق به بنية إرضاء الخصماء اهـ. والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه."

(ص:٩٩،ج:٥،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ط:ایج ایم سعید)

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"وإذا ‌مات الرجل وكسبه ‌خبيث فالأولى ‌لورثته أن يردوا المال إلى أربابه فإن لم يعرفوا أربابه تصدقوا به وإن كان كسبه من حيث لا يحل وابنه يعلم ذلك ومات الأب ولا يعلم الابن ذلك بعينه فهو حلال له في الشرع والورع أن يتصدق به بنية خصماء أبيه."

(ص:٣٤٩،ج:٥،کتاب الکراهية،الباب الخامس عشر،ط:دار الفكر،بيروت)

’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں ہے:

’’سوال:اگر کسی آدمی کے پاس مال حرام ہو تو مرنے کے بعد اس کی اولاد بالغ کو کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:اگر اس مال کا اصل مالک معلوم ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے،اگر معلوم نہیں البتہ وہ مال بجنسہ  جو حرام ہے معلوم ہے تو کسی فقیر کو صدقہ کرنا اصل مالک کو ثواب پہنچانے کی نیت سے ضروری ہے،اور اگر مال مخلوط ہے یہ معلوم نہیں کہ کونسا حرام اور کونسا حلال ہے تو ورثاء کو استعمال کرنا درست ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اس سے احتیاط کریں،یعنی اگر مالک کا علم ہو تو اس کو دے دیں،ورنہ صدقہ کردیں۔‘‘

(ص:٣٤٠،ج:٢٠،کتاب الفرائض)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں