بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشہور قول : زناقرض ہے کی تشریح


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ "زنا قرض ہے" مجھے یہ بات عجیب سی لگتی ہے،  ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان کے گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ دوسرے انسان کو دے، میں جب اپنے دل ودماغ میں سوچتا ہوں تو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ زنا قرض ہے۔ ہاں  یہ تو سمجھ آتا ہے کہ اگر کوئی زنا  کرتا ہے  تو اللہ اس کی سزا اس کو دے گا، وہ معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ اس کو معاف کردے گا، بیشک اللہ غفور و رحیم۔  لیکن یہ  قرض والی بات میری سمجھ سے باہر ہے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ میری اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

یہ حدیث نہیں ہے کہ زنا قرض ہے ، بلکہ بعض اکابر کے اشعار میں اس کا تذکرہ ہے ،  لیکن ان بزرگوں کے اس کہنے کا مقصد بھی یہ  نہیں ہے کہ یہ  قاعدہ کلیہ ہے کہ جس شخص سے بھی  زنا ہوگیا اس کے گھر کی کسی عورت کو یہ قرض ادا کرنا ہی پڑے گا، بلکہ  غالبًا یہ جملہ ایسے شخص  کے بارے میں  کہا  گیا ہے جو زنا کرتا رہتا ہے  اور باز نہیں آتا تو اسے چاہیے کہ وہ  یہ سوچے  کہ جس طرح وہ دوسرے گھروں کی عزت تار تار کر رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے گھر کی کوئی عورت اس میں مبتلا ہوجائے، جیساکہ بہت سے بزرگوں کے تجربات میں یہ بات آئی ہے۔ رہی بات کہ توبہ کے بعد بھی قرض ہوگا تو ظاہر سی بات ہے کہ توبہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی  ہے ، اس کے بعد اس کا حکم نہیں لگتا ہے ۔ 

اور  بلاشبہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک آدمی (غیر متعدی) گناہ کرے تو اس کے گناہ کی سزا  دوسرے کو نہیں ملے گی، اور اللہ  رب العزت  ظلم نہیں کرتے،  نہ ہی کسی ایک شخص کے گناہوں کی سزا  دوسروں کو دیں گے۔

البتہ  ایک حدیث میں آتا ہے " تم پاک دامن رہو گے تو تمہاری عورتیں بھی پاک دامن رہیں گی"۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص پاک  دامن نہیں رہتا، اس کی خواتین  پاک دامن نہیں رہتیں، بایں صورت کہ جو شخص کھلم کھلا زنا کرے اور اپنے اس فسق اور گناہ پر اصرار کرتا رہے، تو یقینًا اس کے گھر والے جو اس کو یہ عمل کرتے دیکھ  رہے ہیں،  ان کے دلوں سے بھی اس گناہ کی برائی ختم ہوجائےگی اور ڈر ہے کہ  وہ بھی اس عمل میں مبتلا ہوجائیں، لیکن اگر کوئی کسی غلطی کو کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنے عمل پر شرمندہ ہو تو  باری تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع ہے،وہ ان شاء اللہ معاف  فرما دیں گے۔  اور اللہ رب العزت جس عمل کو خود ناپسند فرماتے ہیں اس عمل میں اپنے بندوں کو سزا کے طور پر کیوں مبتلا فرمائیں گے۔

الکامل میں ہے:

"حدثنا سعيد بن هاشم بن مرثد الطبراني، حدثنا قاسم بن عبد الوهاب ابن أخت الحسن الأشيب، حدثنا إسحاق بن نجيح الملطي، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: عفوا تعف نساؤكم.

قال الشيخ: وإسحاق بن نجيح قد يقبل بهذا الإسناد ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، فيأتي بكل حديث منكر عنه وعن غيره."

(الكامل في ضعفاء الرجال (1 / 538), تحت ذكر:  155- إسحاق بن نجيح أبو صالح الملطي. الناشر: الكتب العلمية - بيروت-لبنان)

تاریخ أصفہان میں ہے:

"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ دَاوُدَ الْمُؤَدِّبُ، ثنا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا صَدَقَةُ بْنُ يَزِيدَ، ثنا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عِفُّوا تَعِفَّ نِسَاؤُكُمْ»."

(تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان (2 / 255)،  تحت ذکر : 1618 - مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ نَاصِحٍ أَبُو مُسْلِمٍ الذُّهْلِيُّ،الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت)

امالی ابن بشران میں ہے:

"419 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْكِنْدِيُّ بِمَكَّةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ السَّامِرِيُّ، حَدَّثَنِي أَخِي أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا زُهَيْرُ بْنُ زُفَرَ، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ الْفَضْلِ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «عِفُّوا تَعِفَّ نِسَاؤُكُمْ»."

(أمالي ابن بشران - الجزء الأول (1 / 182)، الْمَجْلِسُ الثَّالِثُ وَالسِّتُّونَ وَالسِّتُّمِائَةِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ مِنَ السَّنَةِ،  الناشر: دار الوطن، الرياض)

فیض القدیر میں ہے:

"5441 - (عفوا تعف نساؤكم) أي عفوا عن الفواحش تكف نساؤكم عنها وخرج الديلمي عن علي مرفوعا لا تزنوا فتذهب لذة نسائكم وعفوا تعف نساؤكم إن بني فلان زنوا فزنت نساؤهم."

(فيض القدير (4 / 318)، حرف العين، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

"کشف الخفاء" میں ہے:

 وللعلامة المقري:

عفوا تعف نساؤكم في المحرم ... وتجنبوا ما لا يليق بمسلم

يا هاتكًا حرم الرجال وتابعًا ... طرق الفساد تعيش غير مكرم

من يزن في قوم بألفي درهم ... في أهله يزنى بربع الدرهم

إن الزنا دين إذا أقرضته ... كان الوفا من أهل بيتك فاعلم

( كشف الخفاء ومزيل الإلباس , (2 / 71), حرف العين المهملة,,المؤلف: إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162هـ),الناشر: المكتبة العصرية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144204200987

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں