میری ایک مشین ریپیئرنگ (machine repairing) کی دکان ہے،لوگ میرے پاس خراب مشینیں لاتےہیں،میں انہیں ریپیئر کر کے دیتاہوں۔ میرے پاس کچھ مشینیں ایسی ہیں کہ ان کے مالک اپنی مشین واپس لینےنہیں آرہے، حالاں کہ بہت عرصہ گزرچکاہے، کئی سال گزر چکے ہیں اور اب میرے پاس گودام میں بھی ان کو رکھنے کی جگہ نہیں ہے اور مالکان سے بھی رابطہ ممکن نہیں ہے۔ اب میرے لیے ان مشینوں سے متعلق کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کے پاس مختلف لوگوں کی جو مشینیں رکھی ہوئی ہیں اور مشین کے مالکان اسے عرصہ سے لینے نہیں آرہےاور ان سے رابطہ بھی نہیں ہورہا اور سائل کے لیے ان مشینوں کو دکان یا گودام میں رکھنے کی گنجائش بھی نہ ہواور مشینیں ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو سائل یا تو ان مشینوں کو فروخت کرکےان کی رقم اپنے پاس محفوظ کرلے،اگر مالکان آجائیں تو ان کی رقم ان کو دے دے، ورنہ اس کے بارے میں وصیت لکھ کر جائے کہ اگر مالک آ جائے تو اس کو دے دے، ورنہ مالک کی طرف سے نیت کر کے غریبوں کو دے دے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين."
(كتاب اللقطة، ج: 2، ص: 289، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
" وفي الخلاصة له بيعها أيضا وإمساك ثمنها ثم إذا جاء ربها ليس له نقض البيع لو بأمر القاضي، وإلا فلو قائمة له إبطاله؛ وإن هلكت، فإن شاء ضمن البائع وعند ذلك ينفذ بيعه في ظاهر الرواية."
(کتاب اللقطة، ج: 4، ص: 279، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512100237
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن